یہ کوئی سربستہ راز اور پوشیدہ حقائق نہیں تھے۔ عقل کے اندھے کو بھی معلوم تھا کہ افغانستان سے ملنے والی طویل سرحد کے دونوں جانب مافیاز کے ڈیرے ہیں جو اپنی تمامتر غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں سے ایک ایسا متوازی نظام چلا رہے تھے جس نے پاکستانی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ کراچی کی بندرگاہ سے لے کر طورخم کی سرحد کے دوسری جانب تک ایک ایسا منظم مافیا کام کر رہا ہے جس میں کسٹمر ریونیو اور اپریزنگ کے عملے کی ملی بھگت سے اس کالے دھندے کا آغاز ہوتا ہے، جو انڈر انوائسنگ اوور انوائسنگ غلط ڈیکلرلس اور تمام تر ممکنہ دستاویزی ہیر پھیر کے ذریعے اس کو موم کی طرح اپنے مفاد کے لئے موڑ توڑ لیتے ہیں، یہ سامان کن راستوں سے ہوتا ہوا طورخم کی سرحد تک پہنچتا ہے، اسے کتنی چوکیوں سے چیکنگ کے کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اس میں کتنے ادارے کتنی ایجنسیاں اپنے اپنے حصے کا کام کس طرح انجام دیتے ہیں، کتنے لوگوں کی مٹھیاں گرم ہوتی ہیں، یہ سارا کام ایک باضابطہ سسٹم کے ذریعے ہوتا ہے یہ سسٹم ایسے خود کار سائنٹیفک انداز سے کام کرتا ہے کہ ہمارے تمام شعبوں کی طرح اس سسٹم میں کرپشن اور رشوت ستانی کو ادارتی ضرورت اور سچائی کے طور پر مان لیا گیا ہے۔یہ سارا کھیل ہمیشہ سے یوں ہی چلتا رہا ہے لیکن 1979ء میں افغانستان پر روس کے قبضے کے بعد افغانیوں کی مہمان نوازی کی جو قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑی ہے، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہم نے اس لڑائی کو کفر و اسلام کی جنگ سے تعبیر کرتے رہے۔ جنرل ضیاء نے اس قبضے کو اس طرح بیان کیا کہ اگر ہم دنیا کی دو سپر پاورز کے مابین بننے والے جنگ کے میدان میں مزاحت کے لئے آگے بڑھ کر ہر اول دستے کا کام نہیں کرتے تو روس ہمارے ملک کی طرف پیش قدیم کرتا اور اس کا اصل ہدف بحیرہ عرب میں گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا تھا اس جنگ میں جس طرح ڈالرز کی بارش ہوئی۔ پھر ہزاروں کی جیبیں بھری کچھ اس جہاد کے مجاہد کہلائے اور پھر ہم نے جن لوگوں کے لئے اپنی بانہیں پھیلائی مسلم اخوت‘ بھائی چارے مہمان نوازش اور یکجہتی کے ایسے ناقابل یقین مظاہرے کئے ہمارے اس مجاہدانہ کردار اور افغان وار پر ناجانے کتنے قصے کہانیوں سے بھرپور بے شمار کتابیں لکھ دی گئیں لیکن سابق روسی صدر گوربا چوف نے اپنی کتاب میں جہاں ایک طرف افغانستان پر قبضے کے مہم جوئی کو اپنی غلطی قرار دیا وہاں انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا پاکستانی سرحد عبور کرنے کا ان کا کوئی ادارہ نہیں تھا سوویت یونین میں شریک ریاستوں میں آزادی کی جو چنگاری بھڑک رہی تھی اس جنگ کے نتیجے میں ایک طرف یہ یونین معاشی طور پر کمزور پڑ گئی اور پھر ان ریاستوں کے آزاد تشخص کی راہ بھی ہموار ہو گئی جنرل ضیاء الحق نے روسی عزائم اور اس جنگ میں پاکستان کی بھر پور شرکت کی جو دلیل دی تھی وہ درست تھی یا پھر گوربا چوف کا موقف اگر آپ اسے تاریخ پر چھوڑتے ہیں تو تاریخ تو بنیادی طور پر اہم اور ڈرامائی واقعات کی دستاویز ہوتی ہے نئی اور پرانی دنیا کو الگ کرنے والا بحیرہ اوقیانوس کے دوسری طرف بسنے والا امریکہ اس جنگ میں روسیوں سے تمام پرانے قرضے چکانے اور سرد جنگ کے آخری سرے پر اپنی فتح کا بگل بجانے کی سرمستی میں روسیوں کے خلاف برسر پیکار ہو گیا لیکن اس جنگ میں اس نے پاکستان کو ایک لڑاکا جتھے کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستان کے بعض دانشور اس جنگ کے بعد سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کو اپنی فتح قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس پہلو کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس پورے عمل میں پاکستانی معاشرہ اپنی رعنائیاں اور حسن کھو بیٹھا۔ہتھیاروں کے انبار کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کے زہر نے نہ صرف ہمارا امن و شکون تہہ و بالا کر دیا بلکہ اس پوری جنگ نے ہماری تہذیب معاشرت اور تمدن کو یکسر بدل ڈالا اس دوران ہونے والے واقعات پر مکمل ایک صخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔امریکیوں کی منافقانہ اور خود غرضانہ پالیسی کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ یہی اسامہ بن لادن جس نے روسیوں کے خلاف جب سوڈان سے آ کر اس علاقے میں اپنے جنگی پلان کے تحت امریکیوں کا ساتھ دیا تو سب سے کثیر الاشاعت میگزین ٹائم نے تین بار اپنے ٹائٹل پر اسے اسلام کا مجاہد اور حق کی خاطر ہر وقت سے ٹکرا جانے والا لیڈر کے طور پر نمایاں حیثیت دی اور پھر 9/11کے بعد یہی اسامہ بن لادن امریکیوں کے اعصاب پر ایک ڈرائونے خواب کی طرح چھا گیا پھر اسی ٹائم میگزین نے اسے دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کے طور پر دکھایا۔40سال تک جنگ و جدل کے شلوں میں گھرے افغانستان پر تاریخ کا موقف جو بھی ہو لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کم از کم ان غلطیوں کا سر جھکا کر اعتراف تو کریں ہمیں یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے سے پہلے امریکیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایبٹ آباد میں ایک وسیع و عریض کمپائونڈ میں چھپا ہوا ہے یا پھر ہم نے امریکیوں کو بتایا تھا کہ اسامہ کا پتہ یہ ہے اور تم کارروائی کر کے اسے پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو۔ سچ بولنے‘ سچ کہنے اور سچ کا ادراک کرنے سے کم از کم ہم یہ تو سمجھ پائیں گے کہ آخر ہوا کیا؟اور سچ کیا ہے اب میں کسی کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں کہ ہم یہ معلوم کریں پاکستان اور افغانستان کی تجارت کا میکنزم کیا ہے اس میں کتنی بے ضابطگیاں اور دو نمبریاں ہیں اس پر کبھی پھر تفصیل سے لکھوں گا آج درحقیقت ہم اس پہلو پر بات کرتے ہیں کہ غیر قانونی افغانیوں کی پاکستان میں موجودگی اور حکومت کی جانب سے انہیں یکم نومبر تک کی مہلت کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں ورنہ انہیں گرفتار کر کے ڈی پورٹ کیا جائے گا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے درحقیقت ان فسادی وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو پاکستانی معاشرے میں معاشی اور انتظامی بدحالی کا سبب بن رہی ہیں اور اس بدانتظامی اور کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان نے زندگی کے ہر شعبے کو تلپٹ کر کے رکھ دیاہے۔ یہ جنرل عاصم منیر کا عزم صمیم نظر آتا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک مربوط پلان پر بلا امتیاز کارروائی کے لئے ایک بھر پور کارروائی کے خواہاں ہیں اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے بقول وزیر داخلہ جنرل صاحب نے یہ تک کہا ہے کہ اگر اس میں کوئی عسکری عہدیدار ملوث پایا گیا، تو اس کا بھی کورٹ مارشل کر کے جیل بھیجا جائے گا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی تعداد جو بھی رہی ہو لیکن اس وقت پاکستان میں کم و بیش 43لاکھ افغانی پاکستان میں موجود ہیں، ان میں سے نادرا ڈیٹا کے مطابق تقریباً 23لاکھ افغانی رجسٹر ہیں، یہ رجسٹریشن دو ادوار میں ہوئیں پہلے 13لاکھ اور بعد میں ساڑھے نو لاکھ اس رجسٹریشن میں بھی نادرا کے اہلکاروں نے اپنی مٹھیاں گرم کیں اور ایسے افغانیوں کو بھی رجسٹر کیا گیا جو ضابطے اور قوانین کے مطابق نہیں تھے دو سے تین بار نادرا کے متعدد اہلکاروں کو اس پاداش میں جیل کی ہوا کھانی پڑی آج ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ملین افغانی ایسے ہیں جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں یہاں پر وہ کاروبار کر رہے ہیں اور مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ ان میں سے بہت سے افغانی اسٹریٹ کرائمز اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ جیسے کاروبار میں براہ راست ملوث ہیں پھر رجسٹر افغانسیوں میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پاکستانیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار کر رہے ہیں ایک رپورٹ کی عام فہم زبان میں آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ افغانستان پر جو بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں اس کے سبب وہ ڈالر میں عالمی سطح پر کاروبار کرنے کا اہل نہیں ہے یہی افغانی کاروباری لوگ پاکستان کی مارکیٹ سے منہ مانگے ریٹ پر ڈالر خرید رہے تھے اور اس کو افغانستان سمگل کیا جا رہا تھا اس میں ڈالر کی تمام رقم پاکستان سے جنریٹ ہو رہی تھی اب حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو یکم نومبر تک کی مہلت دی ہے۔ اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزے کی پابندیوں پر سختی سے عمل کیا جائے گا اور کوئی بھی غیر قانونی غیر ملکی پاکستان میں نقل و حرکت نہیں کر سکے گا اس پر مختلف زاویوں سے بحث ہو رہی ہے اس پر ہم آگے چل کر لکھتے رہیں گے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ جنرل عاظم منیر کا ڈنڈا اٹھانے سے پہلے پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر جو کارروائیاں ہو رہی تھیں کیا کم و بیش چار دھائی سے زیادہ عرصے تک ہمارے حکمران آنکھ بند کئے بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کارروائیوں میں ملوث تھے جنرل صاحب یہ ڈنڈا ہر شعبے میں چلنا چاہیے عوام بہت سے مصائب برداشت کر چکے شدید کشیدگی کا سامنا کر چکے اب ان کا حق ہے کہ انہیں امن سکون‘ مہنگائی سے آزادی اور خوشی نصیب ہو۔