قومی احتساب بیورو (نیب) کو ایک ڈکٹیٹر نے قائم کیا، اسے سیاستدانوں کی کرپشن پکڑنے اور سزائیں دینے کے لیے قائم کیا گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جو جو حکومتیں قائم ہوتی رہیں سب نے اپنا اپنا چیئرمین نیب بنایا اور مخالفین پر مقدمات قائم کیے۔ پھر ان کیسوں پر کروڑوں روپے کے اخراجات آئے، لیکن آئوٹ پٹ کچھ نہ نکلا۔ کئی کئی مہینوں کی حراست کے بعد ملزمان کو ’’باعزت‘‘ بری کیا جانے لگا۔ آپ دور نہ جائیں ۔ پی ٹی آئی حکومت میں دیکھ لیں، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ، سعد رفیق ، سلمان رفیق، فواد حسن فود، احد چیمہ سمیت درجن سے زائد سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو گرفتار کیا گیا، ان کی پیشیوں اور کیسوں پر 100کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ 56کمپنیوں کے کیسز بنائے گئے مگر کچھ ریکور نہ ہو سکا۔ اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے،،، تمام سابقہ قیادت کو پکڑ پکڑ کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ دو درجن سے زائد قائدین جیلوں میں بند ہیںمگر مجال ہے کسی کیس میں اسے ریکوری نصیب ہوئی ہو۔ الغرض نیب بظاہر نہ صرف برسراقتدار حکومتوںکی خواہشات پر پورا اترتا دکھائی دیا بلکہ آنے والی سیاسی حکومتوں کے کام بھی آتا رہا۔ اس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔ بہت سے بیوروکریٹس پر بھی مقدمات قائم کئے گئے جس سے بیوروکریسی میں بددلی پیدا ہوئی۔یعنی آپ ایک عام اندازے کے مطابق اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ 10میں سے 9کیسز بے بنیاد نکلے۔ ایسے ہی خدشات بیوروکریسی کو بھی لاحق ہیں،،، تحریک انصاف کے دور میں تو کچھ وقت کے لیے ایسا لگا جیسے بیوروکریسی نے نیب کے خوف سے کام کرنا اور فائلوں کو آگے بڑھاناہی روک دیا ہے۔۔۔ اسی ہفتے کے آغاز میں نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کے ساتھ سول سیکرٹریٹ لاہور میں بیوروکریٹس نے ملاقات کی، ملاقات میں مختلف اداروں کے ڈائریکٹر جنرلز اور ڈپٹی کمشنر موجود تھے،یہ ایک اچھی روایت بھی ہے اور ضرورت بھی۔لیکن جوبات یہاں ڈسکس کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ نیب چیئرمین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’نیب کے بارے میں سست روی کا تاثر کسی حد تک درست ہے‘‘ یہ اعتراف ہمارے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے،،، یہ اعتراف ویسا ہی ہے جیسے کچھ عرصہ قبل سابقہ نیب چیئرمین آفتاب سلطان نے استعفیٰ دے کر اوراس سسٹم کا حصہ نہ بن کر اس غلیظ سسٹم کے منہ پر طمانچہ مارا تھا۔ انہوں نے ’’احکامات‘‘ ماننے سے انکار کیا تھا، ایسا کرنے سے یقینا اُن کے قد میں اضافہ ہوا کیوں کہ آج تک کسی میں ایسی جرأت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بڑوں سے اختلاف کر سکے۔آ ج تک کتنے لوگ اختلاف کرنے کی جرأت کر سکے ہیں؟ بادی النظر میں 2چار مزید آئی جی لیول کے لوگ، یا چیف سیکرٹری کی سطح کے افسران ایسی جرأت کر لیں تو میرے خیال میں پورا سسٹم ٹھیک ہوسکتا ہے، ملک سنبھل سکتا ہے۔ جس طرح نیب چیئرمین نے اپنے ادارے میں موجودہ کوتاہیوں کا اعتراف کیا ہے تو دو چار سربراہان اگر اسی طرح اعتراف کر لیں تو ہم سسٹم ٹھیک کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں ماضی میں ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر دور میں برسراقتدار جماعت نے اپنی مرضی سے نیب میں ترامیم کروائیں ،،،جیسے پیپلزپارٹی کا 2008ء کا دور آیا اُس نے اپنی مرضی کی ترامیم کرائیں، ن لیگ نے اپنی مرضی کی اور پھر سابق حکومت نے اپنی مرضی کی اور رہی سہی کسر پی ڈی ایم کی حکومت بلکہ بھان متی کے کنبے نے پوری کردی ہے، میری ہلکی پھلکی تحقیق کے مطابق اس وقت 90فیصد کرپشن کے مقدمات ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیڈران پر جبکہ 10فیصد باقی عہدیداران پر عائد ہیں۔ لہٰذااس ساری صورتحال میں ہماری نسلیں یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہیں کہ اگر یہ ملک چند سیاسی گھرانوں کا ہے تو پھر اسے 24کروڑ عوام کا ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ ان چند گھرانوں کو کیا مکمل چھٹی ہے کہ ملک و قوم کو وہ جس طرح چاہیں‘ لوٹیں؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ وہ لوگ جو خود ملزم ہوں اور کیسز بھگت رہے ہوں، وہ انہی قوانین میں ترمیم کر دیں؟ لیکن یہاں ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جیلوں میں قید مجرم ہی جیل کا ضابطہ اور قوانین تشکیل دیں؟ کیا ایسے گروہ سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اگر تمام قانون سازی ایک مخصوص ٹولے کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرنی ہے تو پھر ’’مٹی کے یہ بندے‘‘ کیوں ہیں؟ حالانکہ اس کے برعکس ہمسایہ بھارت میں احتسابی ادارے سی بی آئی کا پارلیمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،ان کے قوانین 1982ء سے لاگوہیں، اُن کے آزاد قوانین ہیں، جن میں ترامیم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہاں نیب کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یقین مانیں جب نومبر1999میں قومی احتساب بیورو (نیب)قائم ہوا تو مجھ جیسے کئی سادہ لوحوں نے اطمینان کا سانس لیا جو ہوش سنبھالنے سے اب تک محکمہ اینٹی کرپشن ، جنرل ضیا الحق کے یکطرفہ احتسابی عمل اور سینیٹر سیف الرحمان کے احتساب بیورو کی انتقامی پھرتیاں دیکھ دیکھ کر احتساب کے لفظ سے بیزار ہو چکے تھے۔نیب سے اس لیے امیدیں زیادہ تھیں کیونکہ اس ادارے کو آئینی تحفظ دیا گیا تاکہ کسی بھی اچھے خان کی دھونس نہ چل سکے۔آئین کی نظر میں چونکہ تمام شہری برابر ہیں لہٰذا یہ امید برحق تھی کہ نیب بھی تمام پاکستانیوں کو اسی آئینی نگاہ سے دیکھے گی۔نیب کی عقابی نگاہوں سے کوئی محمود و ایاز نہیں بچ پائے گا اور کسی حکمران میں جرات نہیں ہو گی کہ وہ نیب کے عہدیداروں کو اپنی مرضی سے املا دے سکے اور دبائو میں لے کر تقرریوں اور تبادلوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا سوچ سکے۔جب ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو نیب کا پہلا چیئرمین بنایا گیا تو ایک پروفیشنل ایماندار منتظم کا انتخاب قابل ستائش تھا، لیکن وہ بیرونی ’’مداخلت‘‘ کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ نیب میں سیاست کا عمل دخل بڑھنے لگا تھا۔پھر ہم نے خود اس ادارے کو متنازعہ بنا دیا۔کبھی پلی بارگین ہونے لگی کبھی من پسند افراد کا احتساب تو کبھی منتخب افراد کو احتساب میں چھوٹ! لہٰذااب بات آتے آتے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کے چیئرمین یا تو مستعفی ہو رہے ہیں یا خود اعتراف کر رہے ہیں کہ حقیقت میں نیب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اور جو کوئی چاہتا ہے مرضی کی ترامیم کروا کر فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ نیب کو آزاد ادارہ بنا دیا جائے،،، بالکل بھارتی سی بی آئی کی طرز پر یا ملائشئین اینٹی کرپشن یونٹ کی طرز پر یا برطانوی اینٹی کرپشن کلب کی طرز پر ۔ اگر یہ سیاست سے آزاد ہوگیا تو پاکستان کے 70فیصد مسائل حل ہو جائیں گے،،، آپ کو بیرونی قرض کی ضرورت نہیں رہے گی اور نہ ہی آپ کو دنیا میں خفت اُٹھانی پڑے گی!