حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی میں اپنی 25سالہ طویل اور مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں مرکزی امیر منتخب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو شہر قائد کی قومی سیاست میں اس کا کھویا ہوا مقام دلانے میں اہم کردار اداکیا ،وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی ''گروز''کی موجودگی کسی حد تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوانے میں کامیاب رہے،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت سے قبل 1998ء سے2000ء تک وہ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے، نظامت اعلیٰ سے پہلے وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے ان کے بعدسینیٹر مشتاق احمد خان اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے ۔گویا اب جماعت اسلامی کی لیڈر شپ عملََا اسلامی جمعیت طلبہ کی سنہ 2000ء کی قیادت کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس دور میں قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے مرکزی امیر ہوا کرتے تھے، اس حقیقت کے سب ہی معترف ہیں کہ قاضی حسین احمد نے ہر لحاظ سے ایک فعال کردار اداکیا اور ان کو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کے بعد سب سے زیادہ طویل ترین دورانیے 22سال تک جماعت اسلامی کی مرکزی امارات پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ میاں طفیل محمد کے ہمراہ10سال تک جماعت اسلامی کے قیم ( مرکزی سیکریٹری جنرل) بھی رہے قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو قومی سیاست کے دھارے میں لانے میں بھر پور جدوجہد کی اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جہاد افغانستان اور کشمیر میں بھی میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے عالمی و مسلم برادری میں ان شخصیت کا اپنا مقام تھا ۔ حافظ صاحب کو اپنا موقف پیش کرنے کا سلیقہ خوب آتا ہے ۔52سالہ حافظ نعیم گذشتہ چند سال کے دوران ایک مقبول رہنما کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئے اور اپنے آپ کو سیاست کی پر خار وادی میںمنوایا اگر یہ کہا جائے کہ وہ شہر کراچی کی سیاست میں مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے تو بے جا نہ ہوگا ۔انہوں نے اپنے آپ کو روایت ساز نہیں بلکہ روایت شکن کے طور پر پیش کیا ان کی سیاست کا مرکز و محور نوجوان رہے۔ اپنے اس ٹارگٹ کے حصول میں انھوں نے کراچی میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں جس کے بعد وہ ملک بھرمیں جماعت اسلامی اور اس کے ہم خیال نوجوان گروپس کے ایک آئیڈیل بن کر سامنے آئے ۔ جماعت اسلامی میں مرکزی امیر کے انتخاب کیلئے تین افراد کے نام سامنے لانا ایک اہم روایت رہی ہے۔ یہ تین نام مرکزی مجلس شوری کی منظور ی کے بعد ارکان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ ارکان کی امیر کے انتخاب کیلئے رہنمائی کی جاسکے تاہم ارکان اپنے مرکزی امیر انتخاب کیلئے کسی اور رکن کے حق میں بھی اپنی رائے کا استعمال کر سکتے ہیںانہیں کسی طرح بھی ان تین افراد کو ووٹ دینے کا پابند نہیں بنایا جاتا ۔ مرکزی امیر کا انتخاب ہر 5سال بعدخالصتا خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودی سے حافظ نعیم الرحمن تک یہ روایت برقرار ہے، اگر مولانا مودودی سے حافظ نعیم الرحمن تک جماعت اسلامی کے امراء کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے ہمیں ایک قدر مشترک نظرآئے گی سب ہی مرکزی امراء کے انتخاب میں ارکان نے ان کے تعلق بااللہ ، عمل صالح اور دین اسلام بارے ان کی'' اپروچ'' کو ضرور مدنظر رکھاجس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حافظ نعیم الرحمن کی ڈائریکشن کیا ہوگی ؟جماعت اسلامی میں یک طرفہ سوچ انتخابی سیاست سے مکمل کنارہ کشی اور یا پھر انتخابی سیاست میں ڈوب جانے اور اس کے مروجہ طریق کار کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے کے بارے سخت مزاحمت پائی جاتی ہے اپنی اس طرز فکر کی جماعت اسلامی نے بھاری قیمت چکائی لیکن کوئی بھی اس طرز سیاست کو تبدیل نہیں کرسکا ۔اتحادی انتخابی سیاست اور انتخابات سے مکمل بائیکاٹ، دونوں ہی فارمولاز نے جماعت اسلامی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا یہ کریڈٹ سراج الحق کو جاتا ہے کہ انھوں نے جماعت اسلامی کواپنا جھنڈا اور اپنا نشان کی سیاست پر یکسو کیا اگرچہ وہ اس میں کوئی بڑی کامیابی نہ حاصل کر سکے لیکن اس سے جماعت اسلامی کے کارکن میں ایک ٹھہرائوضرور آیا اس وقت حافظ نعیم الرحمن کیلئے سب سے بڑا چیلیج اتحادی سیاست سے مکمل کنارہ کشی اور قومی سیاست میںاپنے طرز سیاست کو مقبول بنانا ہوگا جس کا عملی مظاہرہ انھوں نے کراچی کی سیاست میں کیا۔ 82سالہ تاریخ رکھنے والی جماعت اسلامی کے کارکن میں بھی برسراقتدار آنے کی خواہش اپنی جگہ موجود ہے وہ بھی اقتدار کے ایوان تک رسائی چاہتا ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اس کا کھل کر اظہار نہیں کرتا، سراج الحق نے مرکزی امیر منتخب ہونے سے قبل خیبر پختون خواہ کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور صوبے کے سینئر وزیر کی حیثیت سے میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بنے۔ اس دوران ان کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کو قومی سطح پر سراہا گیا،حافظ نعیم الرحمن کے طرز سیاست کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں جماعت اسلامی کے کارکن میں یہ سوچ پروان چڑھائی کہ ہم انتخابات میں حصہ ہارنے کیلئے نہیں لیتے بلکہ اس معرکہ میں کامیابی حاصل کرکے ایوان اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ جماعتی حلقوں میں مقبول ہوا جماعت اسلامی کا کارکن سیاست میں حصہ لینے کو رضا ئے الہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے اور مزاحمتی کی بجائے مصالحانہ طرز سیاست کو ترجیح دیتا ہے۔ سیاست کے میدان کی لغزشوں کی وجہ سے یہ میدان دوسروں کیلئے چھوڑ دیتا ہے جماعت اسلامی میں اس سوچ کی بیخ کنی کی جا نے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی سطح پر یہ بات سامنے آئے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ ایک فارمیلٹی پورا کرنے کے لئے نہیں لیتی بلکہ جیتنے کیلئے لیتی ہے اور مسند اقتدار تک پہنچنا اس کا ٹارگٹ ہے۔