لیزا کیش ہینس نے کہا ہے کہ قیادت کا کام دوسروں کی کسی خاص فیصلے کی طرف رہنمائی کرنا ہے جس سے وہ خود کو بااختیار اور مکمل محسوس کریں ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے یہ اوپر نفری نے بتایا۔’’قیادت ایسا صرف اپنے نیچے کام کرنے والوں کو ہمدردی کا احساس دلا کر اور ان سے غیر مشروط تعلق بنا کر ہی کر سکتی ہے‘‘۔ بدقسمتی سے پاکستانیوں کو قیام پاکستان کے بعد کالونیل سسٹم کی تربیت یافتہ بیورو کریسی ملی جس کی ٹریننگ عوام کی خدمت نہیں بلکہ ایک غلام قوم کو زیر نگین رکھنے کی تھی اور یہ کام خوف اور جبر کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ اس سسٹم میں ڈی اپنے ضلع اے سی اپنی تحصیل اور تھانیدار خود کو اپنے علاقہ کی حدود میں بادشاہ تصور کرتا تھا۔ حکومتی مشینری کا واحد کام مقامی آبادی کو خوف اور جبر کے ذریعے غلام رکھنا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اگر کوئی فرق آیا تو وہ اتناکہ قوم پر سفید کے بجائے انگریز کے کالے ایجنٹ حکومت کرنے لگے۔ اگر کچھ تبدیلی آئی تو اتنی کہ افسر شاہی نے سیاسی قیادت کو ملک قوم کی ترقی و خوشحالی میں معاون بننے کے بجائے حکمرانی کے گر سکھانے شروع کر دیئے۔ سیاسی قیادت نے بھی اپنی اپنی کرسیاں پکی کرنے کے لیے افسر شاہی کے مشوروں پر انصاف اور میرٹ کے بجائے من چاہے افراد کو نوازنے اور قومی وسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ سرکاری اداروں میں ریاست کے بجائے سیاستدانوں کے وفادار بھرتی ہونے لگے۔ ریاست قومی مفاد کے بجائے ذاتی فائدے کے تحت چلانے کا چلن پروان چڑھا اور تھانے سے لے کر عدالت تک قانون اور انصاف پر اشرافیہ کی خواہشات اور ضروریات غالب آنا شروع ہوگئیںجس سے حکومتی ادارے تباہ ہونا شروع ہو ئے۔ 2024ء کے الیکشن کے نتائج جتنے بھی متنازعہ ہوں مگر ان سے خیر کا ایک پہلو یہ ضرور برآمد ہوا ہے کہ اشرافیہ کی ترکیبوں سے جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنیں اور پنجاب میں مریم نواز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں تو مریم نواز اور نواز شریف کو بیورو کریسی نے حکومتی امور پر بریفنگز دینا شروع کیں اسی طرح کی ایک میٹنگ میں چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زماں موجود تھے۔ میاں نواز شریف نے 2024ء کے الیکشن میں عوامی ردعمل پر مایوسی اور افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سے اس حوالے استفسار کیا تو جواب ملا مایوس لوگوں کو مسلم لیگ ن کی طرف متوجہ کرنے کا واحد طریقہ صوبے میں اصلاحات، میرٹ کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی ہے۔ میاں نواز شریف نے چیف سیکرٹری سے فرمایا ،زاہد صاحب جب تک مریم نواز وزیر اعلیٰ ہیں، آپ قانون اور میرٹ کے مطابق کام کریں۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے جو کچھ بن پائے کرگزریں۔ چیف سیکرٹری نے میاں صاحب سے درخواست کی سر جب میں میرٹ پرکام کروں گا تو عوام کو تو کچھ ریلیف مل جائیگا مگر حلقے کے ایم پی اے اور ایم این ایز آپ کے پاس میرے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیں گے۔ چیف سیکرٹری کو میاں نواز شریف نے جو جواب دیا وہی اس تحریر کاسبب بنا۔ فرمایا’’ ماضی میں میرے اور میرے خاندان کے خلاف جو بھی پراپیگنڈا ہوا۔ ناانصافیاں ہوئیں ان سب کے باوجود میں پاکستان اور قوم کی خاطر پاکستان آیا ہوں۔ اس پراپیگنڈے سے یقیناً عوام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ آج کے بعد میری زندگی اور مریم کی حکومت کا مقصد ملک و قوم کے لیے بہتری کی کوشش کرنا ہے۔ آپ تمام تر سیاسی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر کام کریں۔ جہاں تک ایم پی اے ایم این ایز کا تعلق ہے جو بھی آئے کام اگر میرٹ سے ہٹ کر ہو تو باعزت طریقہ سے انکار کریں۔ چھ مہینے سال شور اٹھے گا سب میرے پاس آئیں گے میں دیکھ لوں گا اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی چیف سیکرٹری کو فری ہینڈ کے بعد ظاہر ہے چیف سیکرٹری نے میاں صاحب کی ہدایات سے اپنے سیکرٹری صاحبان کو آگاہ کیا ہو گا۔ اب افسر شاہی کا کمال دیکھیے میاں نواز شریف کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں۔ میرٹ کی پالیسی کو ناکام بنانے کی ایک مثال تو محکمہ صحت کی دی جا سکتی ہے۔ صرف میو ہسپتال میں ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل چار سو آسامیاں خالی ہیں تین سال سے اخبارات کے لئے بھرتیوں کا اشتہار بھی تیار ہے ۔ انتظامیہ کو ہسپتال چلانے کے لیے مختلف شعبے آئوٹ سورس کرنے پڑ رہے ہیں۔ افرادی قوت کی کمی سے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افسر شاہی نے عوام کو مریم نواز کی حکومت سے بے زارکرنے کے لیے حل یہ نکالاہے کہ جہاں پہلے ہی چار سو اسامیاں خالی ہیں وہاں سے 164افراد کو مس کنڈکٹ کا جواز بنا کر سیکرٹری ڈسپوزل پر بلا لیا گیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہسپتال میں پرچی بنانے سے لے کر تھیٹر ، میڈیکل فارمیسی میں افرادی قوت کی شدید کمی پیدا ہو گئی اور لوگوں کو ٹیسٹ کروانے اور دوائی لینے کے لیے چار چار سو کی لائینوں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے اور بیمار ہاتھ اٹھا اٹھا کر حکومت کو کوس رہے ہیں۔ افسر شاہی کے اس اقدام کا مقصد ملازمین میں خوف ہراس پیدا کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ جن ملازمین کو خوار کیا جا رہا ہے وہ تنخواہیں بند ہونے کی وجہ سے اور پوسٹنگ کے لیے اپنے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے در پر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں گے۔ ایم پی اے حضرات سیکرٹری سے سفارش کریں مگر وہاں ان کے کام نہ ہونے کا جواز میاںصاحب کی میرٹ کی پالیسی بتائی جائے گی جس سے عوام کے ساتھ خود مسلم لیگ کے کارکن اور ایم پی ایز اپنی قیادت سے دور ہو جائیں گے۔ عوام کے ساتھ سرکاری ملازمین بھی حکومت کو کوسیں گے اور آئندہ انتخابات جب بھی ہوئے مسلم لیگ ن سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حساب برابر کریں گے اور میاں صاحب اور مریم نواز کا عوام کی حمایت اور طاقت سے اقتدار میں آنے کا خواب بھی خواب ہی رہ جائے گا۔