گزشتہ دنوں آرمی چیف سید عاصم منیر نے کراچی میں سرکردہ تاجروں اور ان کی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی ۔ان کے ساتھ کی گئی اس نشست میں آرمی چیف نے تاجروں کے مسائل اور پاکستان کی معاشی صورتحال پر ان کی آراء توجہ سے سنیں اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ اس سلسلے میں فوری طور پر اقدامات کئے جائینگے۔ لاہور میں بھی اسی طرح کاروباری طبقہ سے ملاقات میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی نوید سناتے ہوئے مقامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ آرمی چیف نے اس با ت کی بھی نوید دی کہ بہت جلد خلیجی ممالک سے 70 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے ۔اس سلسلے میں وہ جلد ہی قطر اور کویت کا دورہ کرینگے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ملک کی معیشت اس وقت انتہائی نازک حالت میں ہے ۔توانائی کا بحران ، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے مسلسل اضافے سے نہ صرف عام آدمی بڑی مشکل میں ہے بلکہ صنعتیں بھی تباہی کا شکا ر ہوچکی ہیں، جس کا نتیجہ بے روزگاری کی صورت سامنے آرہا ہے۔ اور اس کے خوفناک معاشی اور سماجی اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے چینی،آٹا اور ڈالرز بڑی تعداد اور مقدار میں افغانستان اسمگلنگ کی خبریں زبان زد عام تھیں جس کے نتیجے میں چینی کی قیمت جو چند ماہ پہلے سو روپے کلو سے بھی کم تھی ایک سو اسی اور بعض شہروں میں دوسو روپے فی کلوسے بھی زائد ہوگئی۔آٹا کمیاب اور کہیں ایک سو ساٹھ اور ایک سو ستر روپے فی کلو میں دستیاب تھا۔ اسی طرح ڈالرز بھی نہ صرف بلیک مارکیٹ کے ذریعہ افغانستان جا رہا تھا بلکہ پاکستا ن کے اندر بھی اس کی طلب میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ڈالر کی قدر میں اس اضافہ سے پٹرول ، بجلی اور دیگر درآمدی اشیا ء کے مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کے ہوش اڑادئیے ۔ اس تمام صورتحال میںتمام ذمہ دار ادارے ، حکومتی اہلکار اور مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی بنے رہے اور عوام کا مہنگائی کے بوجھ تلے جینا مشکل ہوتا رہا ۔ تاجروں سے ملاقات کے بعد آرمی چیف نے اس صورت حال کے تدارک کے لئے مختلف ٹاسک فورس بناتے ہوئے کور کمانڈر کو ہدایت کی کہ فوری طور پر کریک ڈائون آپریشن کے ذریعہ ہر طرح کی اسمگلنگ کی روک تھام کی جائے ۔ چنانچہ اسمگلروں ،ذخیرہ اندوزوں اور کرنسی کی غیر قانونی نقل و حمل اور تجارت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون آپریشن شروع ہوا جس کے مثبت نتائج بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آرمی چیف کی ہدایت پر اسٹیٹ بنک نے بھی کرنسی کے کاروبار سے متعلق کمپنیوں کے خلاف مختلف نوعیت کی کاروائیوں کا آغاز کردیا ہے جس سے کرنسی مارکیٹ میں ڈالرکی قدر میں کمی آنا شروع ہوئی اور محض تین سے چار دن میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر 335 سے305 روپے کی سطح پر آگیا۔بجلی چوروں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اس ضمن میں گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں ۔ ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے کئے جانے یہ سارے اقدامات بہت ہی خوش آئند ہیں اور انہیں اٹھایا جانا چاہیئے تھا لیکن ان کے اٹھائے جانے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی ۔ اس پرکچھ سوال تو پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دیا جانا چاہیئے۔ اسمگلنگ پورے زور شور سے جاری رہی، ڈالر افغانستان جاتے رہے ،ملک میں چینی اور آٹے کی قلت پیدا ہوئی جس کے باعث قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، عوام مشکلات کی دلدل میں دھنستے رہے اور ریاست کے کمزور ہونے کا تاثر مضبوط ہوتا رہا جو ادارے اس صورتحال کو قابو میں رکھے جانے کے ذمہ دار تھے وہ کس بات کے منتظر تھے ۔ ان کا اس غفلت پر محاسبہ ہونا چاہیے۔ اس نگراں حکومت کو بھی ایک ماہ ہونے کو ہے اور اسے معاشی معاملات سے متعلق خصوصی اختیارات بھی حاصل ہیں مگر یہ بھی تماشائی بنی رہی۔ پھر ملک کی معیشت اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر میں تو گزشتہ ایک سال سے اضافہ ہو رہا تھا شہباز شریف کی اتحادی حکومت کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی اور اس کے شہرہ آفاق معاشی جادوگر اسحاق ڈار کوئی کرتب کیوں نہ دکھا سکے۔ اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف بھی اس با اختیار اور فیصلہ کن منصب پر گزشتہ دس ماہ سے فائز ہیں انہوں نے ان معاملات پر توجہ اتنی تاخیر سے کیوں کی؟ ( اگرچہ معاشی سدھار کے لئے کوششیں آرمی چیف کی منصبی ذمہ داری تو نہیں ہے اور نہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں تاہم پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں اس منصب کی طاقتور اور فیصلہ کن حیثیت ہمیشہ رہی ہے ۔لہذا ان سے سوال اسی تاریخی پس منظر کی بنیاد پر بنتاہے۔) اور ایک سوال اس ملک کے تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں سے بھی ہے ۔ انہیں بجلی کی کمیابی اور اس کے بڑھتے ہوئے بلوں سے شکایت ہے وہ حکومت سے خصوصی مراعات اور تحفظات کے خواہاں ہیں ۔انہیں اپنے سرمائے کا تحفظ بھی مطلوب ہے اور غیر ضروری دفتری رکاوٹوں سے چھٹکارا بھی ۔ ان کے یہ سارے مطالبات اور تحفظات جائز اور ضروری ہیں حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہیئے مگر کیا ان تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے اس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ وہ انکم ٹیکس اور دیگر حکومتی واجبات ، خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ، دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں ؟ (استثنائی مثالیں اگرچہ موجود ہیں ) ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ خواہ وہ صنعتکار ہو یا تاجر ،ہول سیلر زہو یا ریٹیلرز ۔ ریاست سے مراعات تو وہ پوری طلب کرتے ہیں مگر ریاست کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ بجلی کی بچت کے سلسلے میں جب تاجروں سے سر شام کاروبار بند کرنے کا کہا جا تا ہے تو وہ اس پر عمل کرنے کئے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے ۔ قومی مفاد کی خاطر وہ یہ قربانی دینے کے لئے آمادہ نہیں ۔اگر تاجر حضرات مغرب تک دوکانیں ،مارکیٹ اور تجارتی مراکز بند کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو بجلی کی بچت کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی قیمت پر بھی بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔پاکستان میں سورج کی روشنی سے استفادے کا بھرپور موقع موجود ہے مگر تاجروں کی سہل پسندی سے یہ مسلسل ضائع ہو رہا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں کاروبار رات ہونے سے پہلے بند کردئے جاتے ہیں ۔ پاکستان جہاں بجلی کی طلب اور پیداوار میںفرق موجود ہے اور اس کی پیداواری لاگت بھی زیادہ ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کاروباری اوقات کو دن کی روشنی تک محدود رکھا جائے۔ اس سلسلے میں مختلف حکومتوں کی جانب سے اعلانات تو ہوئے مگر ان پر عمل نہیں ہوسکا ۔اس اہم قومی معاملہ پر بھی شاید آرمی چیف کو ہی کوئی ایکشن لینا ہوگا ۔اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔