میں اس ملک کا ’’آزاد خیال‘‘ دانشور ہوں۔ میں جو سوچتا ہوں وہی کرتا ہوں کیونکہ میں ہی عقل کل ہوں۔میرا دل کرتا ہے کہ میں اس ملک کا ہر قانون‘ ہر اصول اور ہر ضابطہ بدل دوں۔ یہاں بہت کچھ ایسا ہے جو میری مرضی اور خواہش کے علی الرغم ہوا ہے۔یہ ملک میری منشا کے مطابق چلنا چاہیے اس لیے میں ہر روز سر شام مختلف چینلز پر آ بیٹھتا ہوں اور اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اس قوم کو ’’اصل بات‘‘بتاتا ہوں لیکن کوئی بھی میری سننے کو تیار نہیں ہے۔ میں اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ بر صغیر میں مسلمانوں اور ہندوئوں کو اکٹھے رہنے میں کوئی تکلیف تھی۔دونوں قومیں ہنسی خوشی رہ رہی تھیں محض انگریزوں کی دشمن میں چند لوگوں نے بر صغیر کے دو ٹکڑے کیے۔ میں اس وجہ سے پاکستان کے قیام کو جائز نہیں سمجھتا تھا کیونکہ ہندووں کے ساتھ رہنا ہماری تہذیب اور ثقافت کے لیے اچھا تھا۔ میرے خیال میں انگریزوں کو بھی یہاں سے واپس نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کی موجودگی ہماری ترقی کی ضامن تھی کچھ مولویوں اور انتہا پسندوں کی سازشوں کے نتیجے میں بر صغیر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ میں جانتا ہوں کہ عوام کو علما اور سیاست دانوں نے ورغلا کر ’’مسلمانوں کے لیے‘‘ ایک مملکت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ سادہ لوح عوام اس نعرے کے طلسم میں کھو گئے اور لاکھوں کی تعداد میں جانیں قربان کر بیٹھے۔ اس قربانی کے بعد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے آبائواجداد کا لہو بھی اس ملک کی بنیادوں میںہے۔اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے لیے بنا تھا اگر اسلام کے لیے بنا ہوتا تو یہاں صرف مولویوں کی حکومت ہوتی۔ میں ایک دانشور ہوں اور میرا دعویٰ ہے کہ کوئی مجھ سے میر اموقف تبدیل کرا کے دکھائے۔ مجھے قائد اعظم کو سیکولر کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ میں ان پر ہر طرح کا بہتان لگا سکتا ہوں۔ علما کے سامنے کہتاہوں کہ وہ قائد اعظم کو ’’کافر‘‘ کہتے تھے لیکن میں اگر قائد اعظم کو سیکولر نہ کہوں تو میر اپیٹ پھول جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ملک کے ملاّ کو سیکولر کا مطلب ہی نہیں آتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر (لادین) کا ترجمہ بھی میں اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔ ہے کوئی جو مجھے روک سکے؟ میرے دل کی خواہش ہے کہ یہ ملک سیکولر ملک بن جائے یا پھر سے بھارت کا حصہ بن جائے۔‘ نیندرا مودی وزیر اعظم اور حسینہ واجد اسمبلی کی اسپیکر ہوں۔ میرے خیال میں ہم نے بر صغیر کے ساتھ انصاف نہیں کیا اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ جن ’’اقلیتوں‘‘ کے حقوق پامال ہوئے ہیں انہیں ان کے حقوق اور خود مختاری دی جائے۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ پاکستان کے دستور سے ’’اسلامی‘‘ نام کے تمام الفاظ نکال باہر کیے جائیں۔ قرار داد مقاصد کو حذف کر دیا جائے۔دفعہ ۶۲‘۶۳ جو انسان کے ’’بنیادی حقوق‘‘ کے خلاف ہیں۔انہیں بھی دستور سے نکالا جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ لکھا جائے کیونکہ دنیا میں اس لفظ کی وجہ سے ہماری حیثیت’’خراب‘‘ ہو رہی ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کی قدر نہیں رہی دنیا ہمیں ’’اسلامی‘‘ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد کہتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کچھ علما کو یہ باتیں ناگوار گزریں گی کیونکہ ان کے خیال میں جن ملکوں میں ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نہیں ہوتا وہاں دہشت گرد بھی زیادہ ہیں اور دہشت گردی بھی۔ ان علماکی عجب سی منطق یہ بھی ہے کہ جب تک اس ملک میں اسلام کا نفاذ نہیں ہوتا تب تک یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ان کا وہی ’’فلسفہ‘‘ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ ان کے اس فلسفے کی وجہ سے پاکستان میں انسانی حقوق کی ’’پامالی‘‘ہو رہی ہے۔ یہ معاشرہ انہی کی وجہ سے گھٹن کا شکار ہے۔اس ’’گھٹن‘‘ کا نتیجہ ہے کہ مجھ سے دانشور کھل کھلا کر نہ تو مذاق اڑا سکتے ہیں نہ اپنی مرضی سے کھل کھیل سکتے ہیں۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ نیو ایئر نائٹ منائوں‘ جام سے جام ٹکرائے اور نیم برہنہ ڈانس کروں۔ میری خواہش ہے کوئی یہاں دین اور اسلام کی بات کرنے والا نہ ہو‘ دو قومی نظریہ‘ پاکستان کا مطلب کیا اور اس طرح کے بھونڈے نعرے لگانے والوں کی زبان کٹے‘ سیاست کا دین اور دین کا سیاست سے ’’کوئی تعلق‘‘ نہ ہو‘ جن کے دماغوں میں اس طرح کا خمار سمایاہوا ہے ان کے دماغوں میںدھماکے ہوں اور وہ پھٹ مریں۔ یہاں لوگ جہاد جہاد کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ’’جنگ و جدل‘‘ہے لوگ مجھے بزدل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میں ’’شہادت‘‘ کا اس حد تک قائل ہوں کہ جس کے بارے میں بھی میرا دل چاہے اسی کے ساتھ ’’شہید‘‘ کا لفظ لگائوں باقی سب ’’مردار‘‘ ہیں۔ میں اس ملک کا ایسا ’’دانشور‘‘ ہوں جس کے بارے میں علما نے مشہور کر رکھا ہے کہ میں ’’بکائو‘مال ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے میری کوئی قیمت لگا سکتا ہے۔ میں اپنی خواہش کے عین مطابق اس ملک کی نئی نسل کو ڈی ٹریک کر رہا ہوں۔ انہیں اچھی طرح سے سمجھا رہاہوں کہ یہ ملک بنانے والے جو تمہیں بتا رہے ہیں وہ سب غلط ہے جو کچھ میں سمجھا رہا ہوں وہ درست ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس ملک کے وہ تمام لوگ مر جائیں جو دو قومی نظریے یااسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی مر جائیں جو یہاں اسلام اسلام کے نعرے لگاتے ہیں‘ وہ بھی مر جائیں جو علامہ محمد اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ کے اصولوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی نہ رہیں جو سود کو حرام اور زکوٰۃ کو جائز قرار دیتے ہیں‘ ان کے بھی جنازے اٹھیں جو دستور اور قانون کی عمل داری چاہتے ہیں۔اس ملک کے سب لوگوں کو پھانسی لگے۔ان سب کا حشر وہی ہو جو بنگلہ دیش میں علما کا ہوا ہے تا کہ ہمیشہ کے لیے ان کی ٹیں ٹیں ختم ہو ان تمام اہل قلم کے سر قلم ہوں جو پاکستان کے نظریاتی ملک ہونے کی بات کرتے ہیں۔ بس ایک خواہش ہے جو اس شعر میں ڈھل گئی ہے۔ حجرے شاہ مقیم دی اک جٹی عرض کرے بکرا نذر کراں جے سردار سنت مرے دو چار مرن گوانڈناں‘ رہندیاں نوں تاب چڑھے کتی مرے فقیر دی جہڑی ٹیوں ٹیوں نِت کرے گلیاں ہو جان سانجیاں تے وچ مرزا یار پھرے