پاکستان ، انڈیا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اس وقت کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہیں، آئی سی سی مینز ورلڈ کپ کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ سے روزانہ ون ڈے کرکٹ ہو رہی ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا کی ٹاپ ٹین ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، جبکہ پاکستان نے تادم تحریر اپنے 7میچوں میں سے 4ہارے اور تین جیتے ہیں، ایک میچ پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ آج ہو رہا ہے۔ جس میں جیت کے ساتھ ساتھ بڑے مارجن سے جیت درکار ہے۔ جبکہ پاکستان کا اگلا میچ انگلینڈ سے ہے۔ اب اگر دونوں میچوں میں پاکستان اچھے رن ریٹ کے ساتھ جیت جاتا ہے تو پاکستان کو سیمی فائنل تک جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جس میں روائتی حریف بھارت کے ساتھ مقابلہ ہونے کے 90فیصد چانس ہیں۔ اور اگر ان دو ٹیموں کے درمیان سیمی فائنل ہو جاتا ہے تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا میچ بھی ہو سکتا ہے۔ جس میں اربوں روپے حلال کمائی کے ساتھ ساتھ کھربوں روپے کا جوا لگنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن اس ورلڈ کپ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان کے بہترین ہونے کے باوجود پاکستانی ٹیم اُس ردھم سے اچھا نہیں کھیلی ، جیسے اُسے کھیلنا چاہیے تھا۔کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آرہی ہیں، کئی سکینڈلز بھی سامنے آرہے ہیں جس سے ورلڈ کپ کے درمیان کرکٹ ٹیم کا مورال انتہائی ڈائون نظر آرہا ہے۔اور اس سے دنیا بھر میں ہماری بدنامی ہو رہی ہے ۔ خیر اگر ہم بات کریں کہ یہ معاملہ کہاں سے شروع ہوا تو اس حوالے سے جو رپورٹس آرہی ہیں وہ سائوتھ افریقہ میچ کے بعد کی ہیں، ان رپورٹس کے مطابق سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کرکٹ ٹیم کا ایک کھلاڑی پلیئرز مینجمنٹ کی ایک کمپنی یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں‘ جس کو ان کا ایک ایجنٹ چلاتا ہے۔ ایجنٹ کے ساتھ انضمام الحق اور اہم کھلاڑیوں کی شراکت کے معاملہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سنجیدگی سے سارے معاملہ کی تحقیقات کرنے پر مجبور کر دیا، اگر اس حوالے سے تحقیق میں جائیں تو ایک ہفتہ قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سیلیکٹر اور سابق کپتان نضمام الحق اپنے اور پلیئرز کے ایجنٹ طلحہ رحمانی کی کمپنی میں خود بھی شیئرہولڈر ہیں۔ ’’یازو‘‘ انٹرنیشنل لمیٹڈ کی دستاویز میں کمپنی کا برطانوی رجسٹریشن نمبر 1306 سے شروع ہوتا ہے اور اس میں تینوں مالکان کا یکساں ایڈریس کولچیسٹر، انگلینڈ لکھا گیا ہے۔ کمپنی میں تینوں مالکان کے شیئرز 25 فیصد سے زائد ہیں۔یازو کمپنی 2020 سے ڈیکلیئرڈ ہے، مفادات کے ٹکراؤ کے متعلق سوال کے جواب میں کمپنی کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کوویڈ وبا پھیلنے کے دنوں میں 2020 میں بنی تھی اور اس وقت انضمام الحق چیف سلیکٹر نہیں تھے۔ بہرحال یہ ہماری ’’روایات‘‘ رہی ہیں کہ ہم بڑے ایونٹ سے پہلے یا بعد میں ہمیشہ تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی یہ تنازع کرکٹ بورڈ سے ہوتا ہے، کبھی کھلاڑیوں کا آپس میں ہوتا ہے اور کبھی جوا ریوں کے رابطے ہمارے ٹیم ممبرز کے ساتھ نکل آتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ ورلڈکپ سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم، محمدرضوان اور کئی دوسرے کھلاڑیوں کا کرکٹ بورڈ سے سینٹرل کنٹریکٹ کے حوالے سے تنازع چل رہا تھا اور انضمام الحق نے کھلاڑیوں سے مذاکرات کر کے انھیں تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی کی آمدنی سے بھی شیئر دلایا جبکہ تنخواہوں میں بھی 202 فیصد تک اضافہ کرایا تھا۔ اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اس وقت بھی بعض کھلاڑیوں اور چیف سیلیکٹر کے مفادات یازو انٹرنیشنل کمپنی کی پارٹنر شپ کے حوالے سے مشترک تھے۔مزید یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان بھی اس کمپنی کے مالکان میں شامل ہیں۔ اب رہی کرکٹ بورڈ کی بات تو اس میں بجائے اس کے کہ اس کے کرتا دھرتا اور اعلیٰ عہدیداران کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی ہوں یا کرکٹ ایکسپرٹ ہوں، بلکہ ان سب سے ہٹ کر سیاسی سربراہان کو لگا دیا جاتا ہے، یعنی کبھی نجم سیٹھی (ن لیگ) تو کبھی ذکا اشرف (پیپلزپارٹی )جیسے لوگوں کو یہ سیٹیں دی جاتی ہے۔ اور پھر ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ میرٹ پر فیصلے کیے جائیں؟ اس معاملے پر بھی ذکا اشرف پر خاصی لے دے ہو رہی ہے تبھی انہوں نے چیف سلیکٹر انضمام سے زبردستی استعفیٰ لیا ہے۔ بعد ازاں چیئرمین پی سی بی نے ایک انٹرویو میں اس معاملے کو conflict of intersets قرار دیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف سلیکٹر نے سات آٹھ کھلاڑی قابوکیے ہوئے تھے‘ سلیکشن بھی وہی کروا رہے تھے۔ یعنی پہلے چیف سلیکٹر کو بری قرار دے دیا پھر ان کے خلاف چارج شیٹ بنا دی۔ جبکہ دوسری جانب چیف سلیکٹر نے اس معاملے پر استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکرائو پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ چیف سلیکٹر کلیئر ہونے کے بعد واپس اپنے عہدے پر براجمان ہو سکتے ہیں تب تک بورڈ نیا چیف سلیکٹر نہیں لگائے گا۔ چیف سلیکٹر کا کہنا تھا کہ اگر مجھ پر سوال اٹھے گا تو بہتر ہے کہ میں سائیڈ پر ہو جائوں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جنہوں نے باتیں کی ہیں انہیں ثبوت بھی دینے چاہئیں۔ کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دکھ ہوتا ہے۔ دکھ کی تو بات ہے کہ ایسے وقت میں جب ٹیم کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت ہے‘ تب بورڈ ہی ان کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بہرکیف جو بھی ہے، اس معاملے میں جے آئی ٹی بننی چاہیے، جس میں سپریم کورٹ کا جج سربراہ ہو۔ جو تمام معاملات کو دیکھے۔ جے آئی ٹی یہ بھی معلوم کرے کہ کیا واقعی کچھ کھلاڑیوں پر دبائو ڈالا گیا اور کچھ سے مرضی کے فیصلے کروائے گئے۔ اگر اس میں کوئی قصور وار نکلا تو اُسے قرار واقعی سزا ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہ کر سکے!