آواز مسعود للہ کے مصنف سے میرا پہلا تعارف 1979 میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہوا۔طلباء یونینز کی بد ترین سیاسی مْخالفت کے باوجود اخلاقی اقدار کے امین اور اعلیٰ معاشرتی رویوں کے پاسدار مسعود للہ سے یہ تعلق دوستی میں بدل گیا اور اس گہرے تعلق کو آج نصف صدی بیتنے کو ہے۔ مجھے یاد ہے للہ صاحب اپنے دوستوں کے زیر اثر آ کرمسلم لیگ کی زیلی تنظیم ایم ایس ایف میں تھے جبکہ میں جمعیت کا عہدیدا تاہم للہ صاحب اس وقت بھی بھٹو صاحب کے کارناموں سے متاثر تھے اور ان کی پھانسی کے بعد اکثر کہا کرتے اس لیڈر کی قدر آپ کو بیس تیس سال بعد ہو گی۔ سیاسی دلچسپی ہونے کے باعث وہ اپنی آپ بیتی میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے مْلاقاتوں اور مشاہدات پر کْھل کر تبصرہ کرتے ہیں۔ وہ خود نوشت میں اپنے ددھیال، ننھیال، بچپن اور پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک کے بیتے ہوئے ایام کو یوں بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے اور اپنے ماضی میں کھو جاتا ہے۔کہتے ہیں کسی کی شخصیت کا تجزیہ کرنا ہو تو اس کے دوستوں اور ملازموں سے اس کے ساتھ بیتے ماہ و سال کا احوال معلوم کیا جائے۔ دوستوں کے دوست مسعود للہ کی نصف صدی پر مْحیط دوستیوں کا تو میں عینی شاہد ہوں۔معاشرتی طبقات اور کسی کمپلیکس سے مبرا یہ اپنے پْرانے دوستوں کا نام لے کر اپنی آپ بیتی میں ذکر کرتے ہیں۔وہ پرائمری سکول کا انعام عْرف کھچڑی ہو،انکی تعلیم کے دوران اپنے کھیتوں میں پرْخلوص میزبانی کرے والا ناہید با ہو، سابق چیف سیکٹری چوہدری اشرف ہو، ہر دلعزیز بیوروکریٹس خوشنود اور سرود لاشاری ہوں یا قاضی آفاق مرحوم اور سید مقصود قادر شاہ،سابق ڈی جی نیب میجر شاہ نواز بدر ہوں،سابق کمشنر ذوالفقارگھمن ہوں یا سابق وزیر عامر سْلطان چیمہ یا ڈاکٹر افتخار وڑائچ، حاجی ناصر للہ ہو یا سکول کالج کے دوست ہوں کا ذکر نام لے لے کر کرتے ہیں. اپنے چھوٹے بھائی محبوب سے پیار اور دوستی کے بارے تو پورا باب لکھ چھوڑتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ للہ صاحب اپنے ذاتی مْلازم نسیم بابو کو بھی عمدہ الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بیس تیس سال آگے کے حالات اورواقعات کا ادراک رکھنے والے مسعود للہ کچھ عرصہ سرکاری افسری کرنے کے بعدپاکستان میں ناانصافی اور منفی رویوں سے تنگ آ کر اور اخلاقیات، کردار، رزق حلال، برداشت، معیشت اور انسانیت میں دیوالیہ ہو جانے والے معاشرے کی زبوں حالی اور بوسیدہ ڈھانچے کے دھڑن تختہ ہو جانے کے خدشہ کے پیش نظر نبی اکرم کی سْنت کی پیروی کرتے ہوئے دْنیا کے بہترین مْلک کینیڈا کے خوبصورت ترین شہر وینکوور میں جا بسیرا کرتے ہیں اور وہاں کے معاشرے کا ایک فعال رْکن بن کر صاف شفاف زندگی گزارتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں ویسے بھی ہجرت پرندے ہی کیا کرتے ہیں تن آور درخت نہیں۔اپنے ہجرت کے فیصلے کو پروان چڑھانے میں جن دشواریوں کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے وہ پڑھ کر آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں لیکن وہ کہتے ہیں جہاں جہاں آنکھوں کے پیچھے نمی اور مضبوط الفاظ کے پیچھے لہجے کو کوئی نہ سمجھ پائو تو راستہ بدل لینا چاہئیے۔ یوں یاروں کے یار مسعود للہ نے اپنا راستہ تو بدل لیا لیکن والدین کی محبت اور دوستوں سے پر خلوص تعلق ان کو ہر سال پاکستان کھینچ لاتا رہا جو انکے والدین کی اوپر تلے رحلت کے بعد مدہم ہوتا چلا گیا۔لیکن والدین کی قبروں کے امین اور دوستوں کی پکار پر لبیک کہنے والے اس مرد مجاہد نے آج بھی دیس سے اپنا رابطہ منقطع نہی کیا۔ عشق مْحسن ہمیں مقتل میں پْکارے تو سہی، پابہ زنجیر چلے آئیں گے چھن چھن کرتے۔ مسعود للہ نے اپنی آپ بیتی میں ایک طرف ان بیوروکریٹس بہروپیوں کو بے نقاب کیا ہے جو طاقت کے نشے میں اپنے حقیقی ماں باپ،سگے بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل نفرت لوگوں کو حرام کما کر اپنے بچوں کو حلال کھلانے کے متلاشی افراد کے منہ پر زور دار زناٹہ مارا ہے۔ للہ صاحب بجا طور پر لکھتے ہیں کہ اگر حق کہنے کی استطاعت نہی رکھتے تو باطل کے لئے تالیاں مت بجاؤ۔ دوسری طرف مصنف اپنی آپ بیتی میں اپنے ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر معاشرے کے ہر طبقے سے ایماندار اور اعلیٰ شہرت کے حامل افراد کی دل کھول کر تعریف کرتا ہے اور معاشرے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے افراد وہ وردی والے ہوں یا عام شہری ان کو قابل فخر ہیرو قرار دیتا ہے۔ میرے اس قیمتی دوست کو چند برس قبل کینسر جیسے موذی مرض نے آ گھیرا لیکن جس دیدہ دلیری سے اس نے اپنے مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا وہ ایک مثال ہی نہی بلکہ بے مثال ہے۔ انکی آپ بیتی پر چوٹی کے مصنفین کے تبصرے بحثیت مصنف ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا یہ تبصرہ کہ "مسعود اسلم للہ لکھنا جانتے ہیں اور مجھے اْمید ہے انکی خود نوشت دلچسپی سے پڑھی جائے گی" اور اسی طرح امجد اسلام امجد مرحوم کا یہ کہنا کہ "مسعود للہ کی آپ بیتی میں سادگی،سچائی،جزیات نگاری اور بول چال کے انداز اچھے لگے۔ خاص طور پر انکی منظر نگاری کی صلاحیت متاثر کن ہے۔ خود میں انکی دْنیا بھر میں سیر کے قصے اور دلچسپ واقعات پڑھ کر اپنے آپکو اْنکا ہمسفر سمجھتا رہا" قابل توجہ ہیں۔ للہ کے درینہ دوست سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے کتاب کے ابتدائی اوراق میں کیا خوب لکھا ہے۔کہ "نا ممکن کے لفظ سے ناآشنا مسعود للہ کی بے باکی، جرات مندانہ انداز تکلم اور بے پناہ صلاحیتوں سے تو واقف تھا لیکن اس خصوصیت سے ہرگز آشنا نہ تھا کہ وہ قلم کے بھی سکندر ہوں گے۔"گذشتہ دنوں چیف کمشنر طاھر اسد جپہ نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ "آواز مسعود للہ پڑھتے ہو شہاب نامہ کا 35 سالہ طاری نشہ اپنے انجام کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے کہ للہ صاحب کی تحریر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے." للہ کی خود نوشت "آواز مسعود للہ" کو یہ بْہت بڑا خراج تحسین ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ مجھے اْمید ہے مستقبل میں للہ صاحب کی دلچسپ کتاب پر انکا خاندان، دوست اور جاننے والے فخر کریں گے۔ ٭٭٭٭٭