یہ الیکشن کا سال ہے مگر سیاسی فضا پر غیر یقینی چھائی ہوئی ہے ۔جو سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل ہیں وہ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں کئے جانے والے مشکل فیصلوں کے باعث عوام کا سامنا کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔اور جو سیاسی جماعتیں حکومت سے باہر ہیں،ان کے پاس بھی کوئی واضح پروگرام نہیں ہے کہ مشکلات کے بھنور میں پھنسی اس ریاست کو کیسے نکالنا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کے لئے جینا مشکل کر رکھا ہے۔ ایسے میں عوامی حمایت کے حصول کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس پیش کرنے کے لئے کوئی قابل عمل تجاویز،وعدے اور منصوبے نہیں ہیں،جس کی بنیاد پر رائے دہندگان کو متوجہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت کارکردگی کے بجائے مختلف النوع عصبیتوں کے زیر اثر سیاسی جماعتوں اور قائدین کی حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔سیاسی شعور کی یہ ناپختگی سیاسی جماعتوں کے لئے سود مند رہتی ہے۔وہ الیکشن کے موقع پر جو بھی وعدے اور منصوبے پیش کریں،انہیں قبول کر لیا جاتا ہے، ان پر کیسے عمل ہو گا؟ یہ سوال ہمیشہ ہی غیر ضروری اور غیر متعلقہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں نہ تو سیاسی جماعت کے اندر اور نہ ہی عوامی سطح پر اس بنیاد پر ان کے احتساب کی کوئی روایت جڑ پکڑ سکی ہے۔ اس تناظر میں ابھی حال ہی میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت پاکستان استحکام پارٹی نے جو منشور پیش کیا ہے ۔ اس کے مطابق وہ اقتدار میں آکر 300 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کے لئے بجلی مفت فراہم کرینگے۔کم سے کم تنخواہ 50 ہزار مقرر ہوگی اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے پٹرول آدھی قیمت پر دستیاب ہوگا۔ یہ سب وہ کس طرح کر پائینگے اس کی تفصیل نہ انہیں خبر ہے اور نہ ہی عوام کو اس میں دلچسپی ہے۔ حالانکہ ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی حالت کے تناظر میں ان وعدوں کا پورا ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔اسی طرح 2018 ء کے انتخابات کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ سستے مکانات کی فراہمی اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور اس بنیاد پر سیاست دانوں کے احتساب کا وعدہ اپنے انتخابی منشور میں پیش کیا تھامگر اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں ان میں سے کسی بھی وعدے کو وہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔روٹی ، کپڑا اور مکان کے انتخابی وعدے ہوں یا نظام مصطفی کے نفاذ کے دعوے ، سرائیکی صوبہ کی تشکیل ہو یا مدینے جیسی ریاست کا احیائ۔ سب وعدے محض الیکشن کی حد تک ہی رہتے ہیں ۔ ا قتدار میں آنے کے بعد نہ تو یہ وعدے یاد رہتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ جمہوری سیاست کو عمومی طور پر عوامی مفادات کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں عوامی بہبود اور ریاستی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ عوامی حمایت کے حصول کے لئے انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں ۔ اکثریت کی حمایت مل جانے پر حکومت کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق حکومتی دورانئے میں ان کی تکمیل کرتی ہیں۔ عوامی حمایت کے استقرار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور موجود عوامی مشکلات کو کم سے کم کرنے کے لئے قابل عمل پالیسیوں کا نفاذ کریں، اسی کے ساتھ ساتھ جمہوری سیاسی نظام میں حکمرانوں کے سیاسی اور قانونی احتساب کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ یورپ اور امریکی ممالک میں جمہوری سیاست کی کامیابی ان ہی بنیادوں پر استوار ہے ۔ تاہم پا کستان میں جمہوری سیاست کا مزاج کچھ اور ہی رہا ہے۔ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں اگر کسی کو سب سے کم اہمیت دی گئی ہے تو وہ عوام اور ان کی مشکلات ہیں ۔ جمہوری سیاسی نظام ہو یا غیر جمہوری حکمرانی کے ادوار پاکستان میں ہمیشہ مخصوص اور مراعات یافتہ طبقات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں عوام محض انتخابات کے دوران ہی شریک سفر نظر آتے ہیں پھر اس کے بعد عوام اور ان کے منتخب کردہ حکمرانوں کے درمیان ایک نہ عبور ہونے والی دیوار حائل ہو جاتی ( یا کر دی جاتی ) ہے۔ اقتدار کی بے حس راہ داریوں میں حکمرانوں کو عوام ، ان سے کئے گئے وعدے اور دکھائے جانے والے سارے خوا ب یاد نہیں رہتے۔ اقتدار کی ان دیکھی بہت ساری مجبوریاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے بن جاتی ہیں۔جمہوری سیاسی نظام کی کامیابی اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر سیاسی جماعتوں کے احتساب کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ احتساب کے بغیر جمہوری سیاسی نظام بے معنی ہے ۔جمہوری سیاسی نظام میں انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں ،بالخصوص حکمران سیاسی جماعتوں ، کاسیاسی اور عوامی احتساب ان کے منشور اور وعدوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے ۔ انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں کارکردگی کے بجائے عصبیت، عقیدت اور علاقائیت کو اجاگر کرتے ہوئے سیاسی حمایت تلاش کرتی ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں جو بھی خوش کن وعدے کر لئے جائیں کسی کو بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی اور عوامی احتساب کی مثال کم کم ہی رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ یہ سیاسی نظام عوامی بہبود کے بجائے مراعات یافتہ حکمران طبقات کے مفادات کا نگہبان بن چکا ہے ۔ 2023 ء الیکشن کا سال ہے اور آئینی تقاضوں کے مطابق یہ اس سال نومبر تک ہر حال میں ہو جانے چاہیئیں۔ یہ ہی وہ موقع ہے جس میں عوام کو اپنے اور ریاست کے بہتر مستقبل کے لئے ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنے سیاسی شعور کو بروئے کار لانا ہوگا سیاسی قائدین سے ان کے وعدوں کی روشنی میں ان کا محاسبہ کر نا ہوگا ۔ یہ روایت ایک بار بھی اگر جڑ پکڑ جائے تو یقین جانئے پھر سیاسی قائدین کی جانب سے کئے جانے والے وعدے محض وعدے نہیں رہیں گے بلکہ ان کا پورا کیا جانا بھی ضروری قرار پائے گا۔