تمام فلاسفہ قانون اور فلاسفہ اخلاق اس پر متفق ہیں کہ اگر کسی اصول کو آپ ایک جگہ لیتے ہیں اور دوسری جگہ چھوڑتے ہیں تو آپ کی کوئی integrity نہیں ہے۔ اسی لیے انگریزی قانون میں precedent کا اصول مانا گیا ہے کہ عدالتیں اپنی مرضی سے فیصلے نہ دیتی پھریں بلکہ قاعدے اور ضابطے کی پابندی کریں تاکہ تعصب اور جانب داری کا امکان ختم کیا جاسکے۔ اسی حقیقت کو اصول فقہ میں "اتباعِ ہوی"یعنی خواہشات کی پیروی کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اصول الفقہ میں استحسان کا مطلب یہ ہے کہ اصولی تضاد کو کیسے رفع کیا جائے ۔ integrity اور consistancy analyticalکو کیسے یقینی بنایا جائے لیکن استعمار و مابعد استعمار کے ادوار میں یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہوا ہے کہ استحسان جس کام سے روکنے کے لیے تھا اسی کو استحسان کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ بعض دوست اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺکو دو راستے اختیار کرنے پڑتے تو آسان راستہ اختیار فرماتے۔ یقیناً، لیکن اس آسان راستے کے اختیارکرنے کے بھی کچھ قواعدوضوابط ہیںورنہ سرے سے تکلیف ہی رفع ہوجائیگی۔مثلاً فجرکی نمازکیلئے اٹھنا،یاجون میں روزے رکھنا، یا جان و مال کی قربانی دینا کوئی آسان کام تو نہیں۔رخصتیں یقیناً شریعت نے دی ہیں لیکن عزیمتیں بھی دی ہیں اور رخصتوں اور عزیمتوں کا تعلق بھی واضح کیا ہے۔ بعض دفعہ رخصت پر عمل جائز ہوتا ہے لیکن عزیمت پر عمل بہتر ہوتا ہے؛ بعض دفعہ رخصت پر عمل واجب ہوتا ہے اور عزیمت پر عمل ناجائز ہوجاتا ہے ؛ جبکہ بعض دفعہ رخصت پرعمل جائز ہونے کے باوجود فعل کے کچھ قانونی اثرات ہوتے ہیں اور انسان کی کچھ قانونی ذمہ داری باقی رہتی ہے۔ یہ تفصیلی بحث ہے۔ اس وقت مقصود صرف اس بات کی وضاحت ہے کہ تیسیر کا مطلب cherry pickingنہیں ہے۔ کسی مخصوص اصولی منہج (جسے عام طور پر فقہی مسلک کہا جاتا ہے ) کی پابندی کیوں ضروری ہوتی ہے؟ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں اور عام طور پر لوگ اس میں خلط مبحث میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ، جب فقہائے کرام کا کسی مسئلے پر اختلاف ہو ، تو کیا تمام آرا صحیح ہوتی ہیں ؟ یا صحیح رائے کوئی ایک ہوتی ہے ، اگرچہ دیگر مجتہدین کو بھی اجتہاد کا ثواب بہرحال ملتا ہے ؟ حنفی فقہائے کرام کا اصول یہ ہے کہ صحیح رائے ایک ہی ہوتی ہے۔ فلاسفہ قانون میں ایک بہت بڑا نام رونالڈ ڈوورکن (Dworkin Ronald )کا ہے۔ انھوں نے تفصیل سے دکھایا ہے کہ جہاں بظاہر قانون "خاموش "ہوتا ہے، وہاں بھی صحیح رائے صرف ایک ہوتی ہے۔ یہ وہ امریکی وضعی قانون کے متعلق کہتے ہیں ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ "شریعت" اور "فقہ" کی تقسیم غیر اصولی اور غیر عقلی ہے۔ جن احکام کو "منصوص "کہاجاتا ہے وہ بھی کسی مجتہد کے اصولوں پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ جسے "شریعت" کہا جاتا ہے ، وہ "فہمِ شریعت" ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جب غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ "شریعت " کو "فقہ کے انبار" سے نجات دلائی جائے ، تو وہ دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صرف ہماری فقہ (یعنی فہمِ شریعت) مانیں کیوں کہ صحیح رائے صرف ایک ہی ہوتی ہے ، اور ہماری رائے ہی وہ صحیح رائے ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ بات مفتی اور قاضی کے تناظر سے ہونی چاہیے لیکن کئی اصحابِ علم کو "مبتلی بہ" یا سائل کی فکر پڑ جاتی ہے۔ بحث اصل میں یہ ہے کہ مفتی یا قاضی نے کوئی اصول اپنا لیا ہے تو پھر اس کے لوازمات بھی مان لے اور پھر انھیں ہر مسئلے میں برتے ، الا یہ کہ وہ دو مسائل کو ایک دوسرے سے متمیز کرسکے اور بتاسکے کہ کیوں یہ اصول ایک مسئلے میں لاگو ہوتا ہے اور دوسرے میں نہیں۔ (ضمناً عرض ہے کہ اسی کو استحسان کہتے ہیں لیکن کئی لوگ سمجھتے نہیں )۔سائل کی مثال تو بیمار کی سی ہے۔ جس ڈاکٹر پر اسے اعتماد ہو وہ اس سے جا کر علاج کرائے لیکن ڈاکٹر علاج کرے گا تو ایک خاص ضابطے اور قاعدے سے کرے گا۔ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے بنیادی مفروضات ہی الگ ہیں۔ اس لیے اناڑی ڈاکٹر کبھی ایلو پیتھی اور کبھی ہومیوپیتھی سے علاج کرکے مریض کا بیڑا ہی غرق کرے گا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بہت ہی ماہر اور حاذق طبیب ہو اور اسے دونوں طریقوں میں مہارت حاصل ہو تو وہ کبھی کسی مقام پر دونوں طریق ہائے علاج سے مدد لے لیکن ایسا کرنے سے قبل وہ یہ ضرور یقینی بنائے گا کہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی ہو اور وہ ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں۔ اب ایسے استثنائی مقام کو بنیاد بنا کر ہر کمپاؤنڈر اور عطائی ایلوپیتھی اور ہومیو پیتھی کو ملا کر علاج کرنا شروع کرے ، اور اسے معلوم بھی نہ ہو کہ ان طریق ہائے علاج کے تضادات کیا ہیں اور انھیں دور کیسے کیا جاسکتا ہے ، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ چوتھا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تقلید کے جواز و عدم جواز کی بحث کا محور "عامی کے لیے تقلید کی ضرورت" ہے۔ کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے کہ مریض اپنا علاج خود کرنے کے بجائے ڈاکٹرکے پاس جائے اور اس سے علاج کرائے۔ اس پر بجا طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آدمی کسی خاص ڈاکٹر کے پاس کیوں جائے ؟ کسی اور کے پاس کیوں نہ جائے؟ اس کے جو بھی جواب دیے جاتے ہیں ان کا خلاصہ ایک لفظ میں ہے : "سہولت"۔ آپ کے آس پاس سبھی اس ڈاکٹر سے علاج کرارہے ہیں اور شفایاب بھی ہورہے ہیں اور آپ بھی بچپن سے ان کے زیر علاج ہیں اور کبھی کوئی مسئلہ ہوا نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ ڈاکٹر تبدیل نہ کیا جائے۔ لیکن اگر کسی خاص مرض میں اس ڈاکٹر کے علاج میں آپ کو زیادہ تکلیف محسوس ہورہی ہو اور آپ کو کسی اور ڈاکٹر کے بارے میں معلوم ہوجائے جو کم تکلیف دے کر آپ کا علاج کرسکتا ہے اور کوئی لوگ اس سے علاج کرابھی چکے ہیں (تین طلاق کا مسئلہ لے لیجیے ) ، تو اس ڈاکٹر کے پاس جانے میں کیا قباحت ہے ؟ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں آکر تقلید کی ضرورت کے سارے دلائل دم توڑ دیتے ہیں اور پھر تقلید کے قائلین کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا کہ وہ کہیں کہ بار بار ڈاکٹر تبدیل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علاج کرانا ہی نہیں چاہتے! مکرر عرض ہے کہ اس مسئلے کو مریض کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ ڈاکٹر کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس پہلو سے تقلیدکا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی معاملے کا قانونی فیصلہ چند اصولوں کی بنیاد پر کرتے ہیں، تو آپ پر لازم ہے کہ ان اصولوں کی باہمی ہم آہنگی یقینی بنائیں اور پھر ان اصولوں کی پابندی ہر مقام پرکریں۔ ٭٭٭٭٭