27 مارچ 2022 ،اتوار کی رات ، پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی کثیر تعداد جمع تھی، اُس وقت کے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔کارکنان کو خصوصی طور پر یہاں مدعو کیا گیا تھا تاکہ تحریک عدم اعتماد کے اُبھار کو ایک بڑے اجتماع کے تاثر سے کمزور کیا جا سکے۔ عمران خان کی تقریر لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ آخرکار اُنہوں نے جیب سے ایک خط نکالا اور اپنے چاہنے والوں کو مخاطب کر کے کہا ’’بیرون ملک سے یہ خط لکھا گیا اور اس میں دھمکی دی گئی ہے، خط کے ذریعے حکومت گرانے کی سازش کی گئی ہے۔‘‘یہ سنتے ہی کارکنان کی جانب سے نعروں کی صورت میں ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پھر 9اپریل 2022ء کی رات آتی ہے، اور حکومت بچانے کی آخری کوششوں کے طور پر خط کا بار بار ذکر ہوتا ہے اور اُدھر پارلیمان کے اندر گھنٹیاں بج اُٹھتی ہیں اور 172 سے گنتی آگے بڑھ جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے کارکنان کا سازشی خط پر ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔سابق وزیرِ اعظم کے مذکورہ بیانیے میں نئی بحث کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب 14 اپریل2022 کو ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر کے یہ کہتے ہیں’’سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں۔‘‘پھر بات چلتے چلتے چیئرمین تحریک انصاف پر مقدمات کی آجاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ خفیہ ڈاکیومنٹ سائفر کو لیک کرکے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جبکہ شہباز حکومت یہی کہتی رہی ہے کہ سائفر وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ سب کچھ تحریک انصاف نے ڈرامے کے طور پر کیا۔ یہ قصہ چلتا رہتا ہے، اور پھر پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اچانک نمودار ہوتے ہیں اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان دیتے ہیں کہ سائفر کو بطور سازش استعمال کیا گیا تاکہ عوام کے جذبات کو اُبھارا جائے۔ اور اب گزشتہ روز ’انٹرسیپٹ‘ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ نے ایک خبر شائع کی ہے جس میں اس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شامل کیا گیا ہے جسے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔ یعنی اس خبر کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کہیں نہ کہیں سے سازش ہوئی تھی اور اس سازش کا شاخسانہ ایک بار پھر کوئی اور نہیں بلکہ امریکا بہادر تھا۔ یعنی ہم جب سے پیدا ہوئے ہیں، یہی سنتے آئے ہیں کہ امریکا نے ہماری حکومت میں مداخلت کی۔ ہمارا فلاں حکمران یا ڈکٹیٹر امریکا گیا ، وہاں سے اُسے گرین سگنل دیاگیا، فلاں امریکی اس وقت ہمارے ہاں موجود ہے، وہ مستقبل کی حکومت کا فیصلہ کرے گا۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے مداخلت کرکے ہماری حکومتوں کوختم کیا۔ خان لیاقت علی خان کے قتل کو امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر جنرل ایوب خان نے امریکہ کے رویے سے بدظن ہو کر چین اور روس کا دورہ کیا۔ امریکہ کو یہ دورہ کتنا برا لگا، اس بارے میں الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ’’امریکہ نے روسی قیادت کے ساتھ ایوب کی ملاقاتوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے ان کی وطن واپسی کا انتظار بھی نہ کیا اور انھیں ماسکو ہی میں یہ اطلاع دے دی گئی کہ ان کا واشنگٹن کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پھر سابق وزیرِ اعظم جس وقت خط لہرا رہے تھے، اُس سے لگ بھگ 45 برس قبل ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شعلہ بیان تقریر میں کہا تھا ’’حکومت کے خلاف امریکہ مداخلت کر رہا ہے اور اپوزیشن کے ذریعے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔‘‘پھر جنرل ضیا جب 1988 میں بہاولپور کے قریب طیارہ حادثے کا شکار ہوئے تو طیارے میں اُس وقت کے امریکی سفیر بھی اْن کے ہم سفر تھے۔ ضیا کی موت کو جہاں حادثہ قرار دیا جاتا ہے، وہاں اس کو امریکہ کی سازش سے بھی جوڑا جاتا ہے۔پھر 1988 میں قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف جب تحریکِ عدم اعتماد آتی ہے تو وہ اس کو امریکی مداخلت یا سازش تو قرار نہیں دیتیں، البتہ بیرونی عوامل کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔پھر پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے۔ قبل ازیں انڈیا 11 مئی کو تین اور 13 مئی کو دو ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ 13 مئی سے 28مئی تک اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیرِ اعظم کو کئی مرتبہ فون کیا اور ایٹمی تجربات نہ کرنے کا کہتے رہے۔پھرامریکی صدر باراک اوبامہ 20 جنوری 2009 کو صدارتی منصب پر فائز ہوئے تو اْنھوں نے امریکی خارجہ پالیسی میں ایک اہم ہدایت یہ دی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو باہمی دلچسپی کے امور پر نئے سرے سے استوار کیا جائے۔ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے کون نہیں جانتا؟ ایبٹ آباد میں امریکا نے آکر کس طرح آپریشن کیا۔ الغرض ہمیں کبھی امریکا تنگ کرتا ہے، کبھی ہمیں روس اور کبھی چین تنگ کرتا ہے۔ خدارا! اس قوم کو بتایا جائے کہ آخر اس کی خارجہ پالیسی ہے کیا ؟ اب جو نگران وزیراعظم آرہا ہے، اُس کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ یہ تو فیصلہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ملک ہے تو وہ بھی ہیں، ملک نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ خیر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم خود بھی فیصلہ کرنے میں کمزور ہیں، حالانکہ دنیا بھر میں مثالیں ہیں کہ ممالک امریکا کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں، آپ ترکی ہی کی مثال لے لیں، ترکی کئی چیزوں پر امریکا کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مصر میں حالانکہ ڈکٹیٹر شپ ہے، مگر وہاں بھی کئی فیصلوں پر حکومت ڈٹ جاتی ہے ، یہ مصر ہی تھا جس نے عراق پر حملہ کرنے کے حوالے سے سہولت کار بننے کے لیے امریکا سے اپنے سارے قرضے معاف کروا دیے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے حکمران بجائے ملک کے قرضے معاف کروانے کے ذاتی سہولیات لے لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والوں کو چاہیے کہ قلیل وقتی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی پالیسی بنانی چاہیے، اس سے قوم کے مورال کو بلند کرنے میں ہمیں مدد ملے گی۔ جو اس وقت اس قدر ڈائون ہو چکا ہے کہ میں سوشل میڈیا پر وائرل اُس بات سے 100فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اگر اس 14اگست کو ملک کے تمام بارڈر کھول دیے جائیں تو اس وقت 1947 ء سے بھی بڑی ہجرت ہوگی ۔ اور وہ یہاں آنے والوں کی نہیں بلکہ پاکستان سے بھاگنے والوں کی ہوگی۔ قصہ مختصر یہ کہ صرف ٹیکس لے کر حکومتیں نہیں چلتیں، بلکہ اُن کا مورال بھی ہائی رکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستانی قوم مستقبل سے مایوس ہے۔ فیصلہ کرنے والوں کو چاہیے کہ جہاں اُن سے غلطی ہو، اُسے تسلیم کیا جانا چاہیے، تاریخ شاہد ہے کہ صرف اُن قوموں نے ترقی کی ہے۔ جنہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہے، اورانہیں سدھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے کہ امریکااپنی مرضی کی حکومتیں بنواتا یا ختم کرواتا ہے، ہمارے کچھ لوگ بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں، اور اگر یہ فیصلہ کرنے والے ایسے فیصلے کر جاتے ہیں تو اس کاکریڈٹ اور ڈس کریڈٹ بھی اپنے پاس رکھیں۔ یعنی یہاں ہوتایہ ہے کہ جب کوئی جمہوری حکومت 2، 3سال اچھا کام کرتی ہے تو اُس کا کریڈٹ کسی کودیا جاتا ہے اور جب غلط کام ہوتے ہیں تو اس کا ڈس کریڈٹ ’’جمہوری وزیرا عظم‘‘ کو دیا جاتا ہے۔ اسے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے، اُس کے خلاف انکوائری قائم کر دی جائے گی، اور موقع ملتے ہی اُس کے اقتدار کو لپیٹ دیا جائے گا۔ اگر ملک میں ایسا ہوتا رہے گا تو یہ ملک واقعی جائے عبرت بن جائے گا! اور سبھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے!