پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ خواہش تھی کہ دونوں ممالک ( پاکستان اور بھارت ) کے درمیان ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات قائم ہوں مگر بھارت کی اس وقت کی سیاسی قیادت کی نفرت اور تعصب کے رویوں کے باعث قائد کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی اور خوشگوار دوستانہ تعلقات تو کجا معمول کے تعلقات بھی مشکلات کا شکار رہے۔ تقسیم کے وقت کی سیاسی منافرت اور مسائل سے تعلقات میں کشیدگی کی جو فضا پیدا ہوئی وہ پچھتر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوسکی۔ تعلقات کی اس صورتحال میں ، ریاستوں کے الحاق بالخصوص کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت کے متنازع الحاق ، پنجاب کی غیر منصفانہ تقسیم جس کے نتیجے میں آبی وسائل کا نزاع پیدا ہوا اور مشرقی پنجاب میں ہونے والے فسادات کا بڑا دخل رہا جس کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور جان سے گئے ۔تقسیم کے وقت پیدا ہونے والی اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا اگر اس وقت کی برطانوی حکومت عجلت اور بھارت کے ساتھ واضح جھکائو کے روئیے سے اجتناب کرتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتی۔ تاریخی غلطیوں کا یہ بوجھ برطانوی اہل فکر و دانش اور حکمرانوں کے کاندھوں پر ہمیشہ رہے گا۔ کشمیر اور دیگر نزاعی مسائل کی موجودگی کے باعث پونے دو ارب سے زائد آبادی پر مشتمل یہ دونوں ممالک اپنے قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ سماجی ترقی کے بجائے دفاعی ضرورتوں کے لئے مختص کرنے پر مجبور ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگوں اور مختلف سرحدی جھڑپوں کی ایک تاریخ موجود ہے اور بعینہہ مسائل اور تنازعات بھی اسی طرح موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اختلافات اور تنازعات کی یہ کشیدگی عوام کی سطح پر بھی باقی رکھی گئی ہے۔ برکس (BRICS ) ہو جس میں برازیل، روس ، انڈیا ، چین اور سائوتھ افریقہ شامل ہیں یا پھر G - 20 ممالک کی تنظیم جس میں سرکردہ عالمی معیشت کے حامل ممالک شامل ہیں۔ چین اور بھارت اپنے سیاسی اور سرحدی اختلافات کے باوجود ان فورم پر اکھٹے ہیں۔ ملکوں کی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے اشتراک عمل اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اب وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی نے جغرافیائی فاصلوں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔معاشی اور تجارتی ضرورتوںنے ملکوں کے تعلقات کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کردیا ہے اب معاشی ترقی کے امکانات ،باہمی تجارت کے مواقع اور داخلی سلامتی کا حصول ممالک کے درمیان تعلقات کی اولین ترجیح بن گئے ہیں۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کو بھی کسی طرح ختم یا کم کیا۔جائے۔ سیاسی تنازعات اور مسائل کو اب باہمی تجارتی اور سماجی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو اب مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے تعلقات کے نئے زاویوں اور پہلوئوں کو تلاش کرنا ہوگا ۔اور اس کی ابتدا تجارتی اور معاشی ضرورتوں کو بنیاد بناتے ہوئے تعلقات میں موجود کشیدگی کو کم کر نے سے ہو سکتی ہے۔ بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مہارت اور تجارت وسیع امکانات رکھتی ہے ۔ پاکستان کو بھارت کی اس مہارت اور تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے اندر انفارمیشن ٹکنالوجی کو وسعت دینے کی شدید ضرورت ہے۔اسی طرح زراعت اور زرعی پیداوار اور اس کی تجارت بھی بہتر باہمی تعلقات کی بنیاد ہو سکتی ہیں۔پاکستان اپنی زرعی اجناس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے یوکرائن ،برازیل اور روس کے بجائے بھارت کے ساتھ مبادلاتی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔بھارت اس وقت آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے اور ایک بڑی تجارتی منڈی ہے ۔دنیا کی نظریں اس پر ہیں ۔اس کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے ۔اس حیثیت میں تمام عالمی فورم پر اس کی ریاستی ساکھ توانا ہے۔ برکس اور جی۔ٹوئنٹی ممالک میں اسے ایک موئثر شرکت کے ذریعہ عالمی معیشت میں ایک مضبوط کردار ادا کرنے کا موقع حاصل ہے ابھی حال ہی میں جی۔ٹوئنٹی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس کا انعقاد بھارت میں ہوا ہے جہاں عالمی معیشت کے قائدین نے بڑے دور رس منصوبے تجویز کئے ہیں جس سے ان ممالک کے درمیان نہ صرف معاشی تعلقات مذید مستحکم ہونگے بلکہ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی مفاہمت اور تعاون میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان جو بھارت کا ایک پڑوسی ملک ہے ۔ اسے ان سارے امکانات میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیئے تھا ۔ بھارت نے اپنی حقیقت پسندانہ معاشی ضرورتوں کے مطابق اپنے عالمی تعلقات کو ایک وسیع تناظر دیا ہے ۔ آج اس کے تعلقات روس،چین اور امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ غلط ترجیحات، عاقبت نا اندیش قیادت اور سطحی جذباتیت پر مبنی پالیسیوں کے باعث پاکستان بھارت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور تباہ حال معاشی صورتحال نے اقوام عالم میں پاکستان کی ریاستی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے۔ ریاست کی سطح پر پاکستان کو ان حقائق کی روشنی میں بین الاقوامی تعلقات کو از سر نو استوار کرنا ہو گا بالخصوص بھارت کے ساتھ روایتی مخالفت کو ترک کرتے ہوئے معاشی اور تجارتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر مفاہمت کی طرف قدم بڑھانا ہونگے ۔معیشت کے استحکام میں ہی پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے ۔ پاکستان مضبوط ہو گا تو باہمی تنازعات کے حل کے لئے اس کی آواز بھی توانا اور توجہ کے لائق ہوگی ۔یہی عالمی سیاست کا سکہ رائج الوقت ہے جس سے ہمارا دامن بالکل خالی ہے !!!!