دستور میں لکھے گئے الفاظ کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس کا سیاسی اور آئینی تشخص وفاقی پارلیمانی نظام سے وابستہ ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کا تسلسل انتخابات کے توسط سے ہی جاری رہتا ہے اورایک شفاف اور غیر متنازع انتخابات کا انعقاد ہی پورے سیاسی نظام کے استحکام کی ضمانت ہوتا ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں بڑے نشیب و فراز آتے رہے ہیں بالخصوص انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ تکلیف دہ حد تک تنازعات کا شکار رہی ہے۔اس کا آغاز پاکستان میں ہونے والے پہلے انتخابات سے ہی ہوگیا تھا، جو پنجاب اسمبلی کے لئے 1951ء میں ہوئے تھے ۔ان انتخابات میں اختیار کی جانے والی روش سے ہی پاکستان میں جمہوری سیاسی سفر کے مخدوش ہونے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ جب اس وقت کی حکمراں جماعت یعنی پا کستان مسلم لیگ نے اپنی کامیابی کے لئے ہر طرح کے حربے اور ریاستی وسائل کو استعمال کیا تھا ۔اور جھرلو کی اصطلاح پاکستان کی سیاست میں معروف اور مستعمل ہونے لگی ۔ پھر یہی روایت سندھ،اور شمال مغربی سرحدی صوبے ( موجودہ خیبر پختون خوا ) کے انتخابات میں بھی دہرائی گئی البتہ مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش ) کے انتخابات میں ایسا ممکن نہیں ہو سکا جس کا نتیجہ حکمراں مسلم لیگ کی بد ترین شکست کی صورت سامنے آیا ۔( مسلم لیگ نے 309 کے صوبائی اسمبلی کے ایوان میں محض 9 نشستیں حاصل کی تھیں بعد ازاں ایک ممبر کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ کی 10نشستیں ہوگئیں جو ایوان میں پارلیمانی جماعت ہونے کے لئے ضروری تھیں)۔1970 ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اتنے ہنگامہ خیز رہے کہ ملک کا وفاق ہی ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔1977ء میں ہونے والے انتخابات ملک میں ماشل لاء کے نفاذ اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موت کا سبب بن گئے۔1985ء میں ہونے والے انتخابات فوجی حکومت کی موجودگی میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ذات، برادری ،مسلک،مالیاتی حیثیت اور خاندانی پس منظر کی بنیاد پر ان انتخابات نے پاکستان کی سیاست میں ’’ الیکٹیبلز ‘‘ کو متعارف کرایا اور پھر وہ پاکستان میں انتخابی سیاست کا مستقل حصہ بن گئے، 1988سے 1997 کے دوران ہونے والے چار انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں ضیاء الحق کے مارشل لاء میںکی جانے والی آٹھویں ترمیم میں موجود شق 582-B کے زیر اثر سیاسی عدم استحکام کا شکار رہیں۔2002 ء اور 2008 ء کے انتخابات کے نتائج سیاسی جماعتوں کی جانب سے بالعموم تسلیم کرلئے گئے اور سیاست بڑی حد تک طلاطم خیزی سے محفوظ رہی ۔ لیکن پھر 2013 ء کے انتخابات شدید اعتراضات کا نشانہ بنے۔ عمران خان نے انتخابات کے نتائج کے خلاف اسلام آباد میں چار ماہ سے بھی زائد دھرنا دیا اور حکومتی اور ریاستی امور کو مفلوج کئے رکھا ۔سیاسی عدم استحکام کی فضا میں پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔جاری معاشی منصوبے بالخصوص سی پیک ( CPEC ) تعطل کا شکار ہوئے اور سیاسی ماحول میں تشدد، ہٹ دھرمی اور لا قانونیت کا مزاج پختہ ہوا۔ 2018 انتخابات کا انعقاد سیاسی کشیدگی کے ماحول میں ہوا ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے باعث نا اہل کردئے گئے تھے ۔ عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے نعرے اور جلسوں میں اپنے متعارف کردہ نئے رنگ ڈھنگ کے باعث نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کر چکی تھی ۔انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے وفاق،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں تشکیل دیں۔بلوچستان میں بلوچستان عوام پارٹی کے ساتھ وہ حکومت میں شریک رہی۔پنجاب اور سندھ بالخصوص کراچی میں تحریک انصاف کی کامیابی کسی حد تک حیرت انگیز تھی۔انتخابات میں تحریک انصاف کی یہ کامیابی بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کے بجائے عدم استحکام کا زیادہ سبب بنی۔عمران خان کی حکومت کی ساری توجہ اپنے سیاسی مخالفین کے احتساب اور ان کے استہزا پر رہی۔ان کے نزدیک ان کے مخالف تمام سیاستدان بدعنوان ہیں لہذا ان سے کسی بھی طرح سیاسی مفاہمت نہیں ہوسکتی، ان کی حکومت کا پورا دورانیہ اسی ایک بیانیہ پر استوار رہا۔مخالفین پر مقدمات کی بھرمار سے احتساب انتقام میں بدل گیا اور اس کی اہمیت متاثر ہوئی۔ یہی وجہ رہی کہ وہ انتظامی ،عدالتی اور عسکری اداروں کی مدد اور ان کے بھرپور تعاون کے باوجود مثبت سیاسی اور معاشی کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے۔سیاست میں اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جانا ،مفاہمت سے گریز اور سیاسی مخالفین کو ریاست کا غدار قرار دینا ان کی سیاست کا امتیازی پہلو رہا۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی قرار دیا اور ان کی حکومت کے خلاف سیاسی طور پر متحد ہوگئے، جس کے نتیجے میںعمران خان کی حکومت کا قبل از وقت خاتمہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ پاکستان میں ہونے والے بیشتر انتخابات سیاسی استحکام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں سیاست دانوں کے غیر جمہوری رویوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی غیر ضروری مداخلت اور دبائو کا بڑا حصہ رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے تمام ہی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ ہی موئثر رہا ہے، سیاست دان اس سے مستفید بھی ہوتے رہے ہیں مگر جس طرح 2018 ء کے انتخابات اور اس کے بعد کے حالات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کھل کر اور واضح طور پر سیاسی منظر پر سامنے آیا۔ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔موجودہ سیاسی حالات میں بھی یہ منظر کھلی اور بند آنکھوں،ہر دو طرح،سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کو ہونے والے انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی شکوک و شبہات کی حد سے نکل کر اب تنازعات کی زد میں آچکے ہیں۔سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان پپلز پارٹی کی جانب سے مسلسل اعتراضات کئے جانے کے بعد اب صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب بھی انتخابات کے انتظامی ماحول سے مطمئن نہیں ہیں۔نگراں وزیر اعظم،عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو لکھا جانے والا ان کا خط اسی پہلو کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ایک سیاسی جماعت کے لئے تمام سیاسی،انتظامی اور عدالتی رکاوٹوں کا اتنی تیزی سے دور کیا جانا ہی انتخابات سے قبل ہی ان کا متنازع بنادینے کے لئے کافی ہے۔ایسے ماحول میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج کو کس طرح دیگر سیاسی جماعتیں تسلیم کر پائینگی۔یقینی طور پر اعتراض ہوگا، احتجاج ہوگااور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔ کیا پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں!سیاست دانوں اور دیگر فیصلہ سازوں کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت میں پاکستان مسلم لیگ نواز پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ان انتخابات میں جانے سے قبل اپنے اوپر لگے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے واضح داغ کو مٹائے۔ وگرنہ یہ انتخابات بھی ہمیشہ کی طرح تنازعات کو جنم دینگے ۔انتخابات جنہیں سیاسی استحکام کا سبب ہونا چاہیئے ایک بار پھر سیاسی انتشار کا باعث ہوجائینگے۔جس کا خمیازہ ملک کی معیشت اور اس کے شہریوں کو بھگتنا ہوگا۔اسٹیبلشمنٹ کو بھی انتخابات اور ان کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی حکمت عملی کو اب بدلنا ہوگا۔ پاکستان کا سیاسی اور معاشی مستقبل شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم ایک مستحکم حکومت کے قیام اور تسلسل میں ہے ۔ سیدھی سی یہ بات سیاستدانوں سمیت تما م فیصلہ سازوںکو اب سمجھ لینی چاہیئے ۔