افغانستا ن میں طالبان کی موجودہ حکومت کے قیام ( 15 اگست 2021 ) کے بعد سے پاک افغان تعلقات میں سرد مہری اور کشیدگی نظر آ رہی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیشتر کارروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان نے ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ کا لعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہدایتی مراکز افغانستان میں موجود ہیں۔کا لعدم تحر یک طالبان پاکستان کے مقاصد اور مطالبات جو بھی ہیں ان کی اس روش نے نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کو چیلنج کیا ہواہے بلکہ پاک افغان تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت سے تحریک طالبان پاکستان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کا کہا مگر افغان حکومت نے اسے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ۔بدیہی طور پر ا فغانستان حکومت کا یہ رویہ غیر دوستانہ اورغیر ہمدردانہ ہے۔پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی ممالک ہیں، مذہبی، ثقافتی،تجارتی اور گہرے تاریخی روابط بھی موجود ہیں پھر تعلقات میں یہ تلخی اور دوری کیوں؟ یہ درست ہے کہ پاک افغان تعلقات کی ابتدا غیر دوستانہ انداز میں ہوئی تھی۔افغانستان وہ واحدملک تھا جس نے 2670 کلو میٹر طویل ڈیورنڈ لائن کو پاک افغان سرحد تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ سرحد کا یہ تعین انگریزوں اور اس وقت کے افغان حکمران کے مابین ایک سمجھوتے کے باعث ایک عارضی انتظام تھا جو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اب موثر نہیں رہا لہذا نئی صورتحال میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدوں کا از سر نو تعین ہونا چاہیئے پھر یہ کہ پاکستان میں شامل پشتون قبائلی علاقوں پر بھی افغانستان کا یہ دعوی سامنے آیا کہ یہ تاریخی اور ثقافتی طور پر افغانستان کا حصہ ہیں جنہیں اس وقت کی ہندوستان کی برطانوی حکومت نے بزور طاقت یا معاہدات کے ذریعہ ہندوستان میں شامل کر لیا تھا، اب جب کہ ہندوستان سے برطانوی اقتدار ختم ہو رہا ہے لہذا سرحدوں کا تعین از سر نو ہونا چاہیئے ۔ اسی بنیاد پر قیام پاکستان کے وقت آزاد پختونستان کی آواز بھی بلند ہوئی تھی جسے اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ ( موجودہ خیبر پختون خوا ) کے عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعہ مسترد کردیا تھا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کیا تھا ۔یہی وہ بنیادی اختلاف تھا جو دونو ںممالک کے درمیان نزع کا باعث بنا رہا تاہم 1976 ء میں افغان حکمران سردار دائود نے پاکستان کے دورے کے موقع پر ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کی بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔اس کے باوجود اختلافات کا یہ قضیہ ختم تو نہیں ہوا البتہ راکھ میں دبی چنگاریوں کی مانند موجود رہا ۔ طالبان کی موجودہ حکومت کے وزیر خارجہ کا ایک حالیہ بیان اس کی طرف نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے جس میں انہوں نے اس مسئلے کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے کسی اور وقت پر اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ ایک اور پہلو جس نے حالیہ پاک افغان تعلقات کو زیادہ متاثر کیا ہے وہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے زیر اثر پالیسیوں کا اختیار کیا جانا ہے ۔ 1979میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد افغان مزاحمت ہو یا پھر ستمبر 2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا وا قعہ ہر دو مواقع پر پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی امریکی دبائو کے زیر اثر سامنے آئی۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے دوران امریکی تعاون اور حمایت سے مزاحمت کاروں ( مجاہدین ) کا بھرپور ساتھ دیا گیا پھر جب یہی مجاہدین ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد امریکہ نے دہشت گرد قرار دیے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا تب پاکستان نے بھی امریکی دبائو کے باعث انہیں دہشت گرد سمجھنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی ۔ا فغان طالبان سے متعلق پالیسیوں کے اس قطبی انحراف سے نہ صرف پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا اظہار ہوا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں ایک واضح دراڑ بھی پڑ گئی ۔موجودہ صورتحال اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیاں اور اس پر افغان طالبان حکومت کا سرد مہری پر مبنی رویہ تعلقات کو مزید متاثر کر رہا ہے۔ہر دو حکومتوں کو اس سلسلے میں انتہائی سنجیدگی اور باہمی تفہیم کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ افغانستان خشکی سے گھرا ( LAND LOCKED ) اور ایک دشوار گزار جغرافیہ کا حامل ملک ہے۔اس کی بیرونی تجارت کا انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہی ہے۔افغانستان کو اپنی تجارت اور پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ہر قسم کی کشیدگی سے محفوظ اور دوستانہ ہوں ۔ دوسری طرف افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات بھی پاکستان کے لئے باعث تشویش ہیں ۔ بھارت جغرافیائی رکاوٹوں کے باوجود افغانستان کے ساتھ بہتر معاشی تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہے جب کہ پاکستان پڑوسی ہونے اور گہرے ثقافتی مذہبی روابط کے باوجود تعلقات کی یہ نہج قائم نہیں رکھ سکا ۔ دونوںممالک کو اس وقت تحمل،دور اندیشی اور دانائی سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی سازوںکے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ افغانستان سے متعلق اب اپنی روایتی اور سرپرستانہ حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے برابری کی بنیاد پر برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کے قیام پر توجہ دے۔ امریکی دبائو کے باعث افغان طالبان کے ساتھ جو رویہ اختیا ر کیا گیا تھا، اس کی تلافی ضروری ہے اعتماد اور اعتبار کا رشتہ جو ٹوٹ گیا تھا اسے ہر صورت بحال کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت اپنی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ سوجھ بوجھ اور احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔وہ اب پاکستان کے حلقہء عاطفت سے نکلنا چاہتی ہے ۔پاکستان کو یہ زمینی حقیقت تسلیم کرنا ہوگی ۔ وقت بدل چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی مقتضیات بھی بدل چکی ہیں ۔ اب انہیں عسکری سوچ سے نہیں سیاسی اور سفارتی آداب کی روشنی میں طے کرنا ہوگا ۔جس طرح ایک پر امن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے بعینہ افغانستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہر قسم کی شورش سے محفوظ ہوں اس کے لئے دونوں کو ہر سطح پر کوششیں کرنا ہونگی۔وقت اور حالات کا تقاضہ یہی ہے۔