اپنے متنوع جغرافیائی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان کی معاشی اورسماجی ترقی ایک ادھورا خواب بنی ہوئی ہے۔ پچھتر سال سے ریاست کی معیشت ،سیاست اور سلامتی کے مسائل کسی بھی طرح حل ہونے میں نہیں آرہے ہیں ۔ تقسیم کے وقت کے مسائل کا بوجھ ریاست آج تک نہیں اتار سکی ۔حکمرانوں کی بد انتظامیوں ،سیاسی افراتفری اور غیر یقینی حالات کے باعث پاکستان کا معاشی مستقبل عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے ۔پاکستان کی معاشی صورتحال کی خستہ حالی ( بد حالی) ریاست پر واجب الادا قرضوں کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالنے سے ہی آشکار ہو رہی ہے۔ دسمبر2022 تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 246 ارب 78 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ جس میں غیر ملکی قرضہ 100.52 ارب ڈالر اور ملکی قرضے کا حجم 146.25 ارب ڈالر ہے۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اتنے قرضے لئے جانے کے باوجود ملکی معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کی جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ زرعی ترقی پر جمود طاری ہے اورصنعتیں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث بند ہوتی جارہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی سماجی بے چینی ، جرائم میں اضافہ اور سیاسی عدم استحکام اس پر سوا ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی ہی یہ رہی ہے کہ حکمران ،خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ، ان کی ترجیحات اور منصوبہ بندی ٹھیک نہیں تھیں اور نہ ہی وہ قومی وسائل کا استعمال درست طریقے پر کر سکے۔اب اس میں اہلیت کی کمی رہی یا دوش نیتوں کی خرابی کو دیا جائے ،سیاسی مفادات اورمصلحتیں زیادہ عزیز تھیں یا ذاتی مراعات میںا ضافہ کی خواہشات غالب رہیں، تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان کا ریاستی سفر ایک منحوس دائرے (VICIOUS CIRCLE ) سے باہر نہیں نکل پایا۔ بیسویں صدی کے وسط میں جو ریاستیں آزاد ہوئیں تھیں وہ آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو کر اپنی اہمیت بین الاقوامی سطح پر منوانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔چین نے عالمی مارکیٹ میں تیزی سے اپنے قدم نہ صرف بڑھائے ہیں بلکہ مضبوطی سے جمائے ہوئے ہیں ۔ چین کی برآمدات گزشتہ سال 271.709 ملین امریکن ڈالرز رہیں۔ اسی طرح بھارت نے بے شمار داخلی مسائل کی موجودگی کے باوجود عالمی معیشت میں اپنے حجم اور وزن کو قابل ذکر حد تک بڑھا لیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں اس کی برآمدات 305.044 ملین ڈالرز کی تھیں۔بنگلہ دیش جس نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد اپنا آزادی کا سفر شروع کیا ۔اس نے بھی معاشی اور سیاسی استحکام میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کی برآمدات 52.083 ملین ڈالرز جب کہ پاکستان کی برآمدات اس عرصہ میں محض 31.782 ملین ڈالرز تک محدود رہیں جب کہ درآمدات 80.136 ملین ڈالرز سے بھی تجاوز کر گئیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بے شمار قدرتی اور انسانی وسائل کی موجودگی کے باوجود سال بہ سال ہمارا تجارتی خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ عالمی منڈیوں میں ہماری تجارتی ساکھ بنگلہ دیش سے بھی کمتر درجہ پر ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں ) 1972-2023 (میں پاکستان کی معیشت نے ترقی کے بجائے تنزلی کا سفر زیادہ طے کیا ہے ا ور اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ حکمرانوں نے معیشت سے متعلق فیصلے بھی سیاسی مصلحتوں اور وقتی مفادات کے پیش نظر کئے ہیں۔ ’’کام چلائو ۔وقت گزارو ‘‘ کی حکمت عملی پر انحصار کے باعث بیشتر اہم اور ضروری فیصلوں سے گریز کیا جاتا رہا جس کا نتیجہ آج پوری ریاست اور اس کے شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ قومی ترقی کے لئے درست راستے کا انتخاب اب بھی اگر کر لیا جائے تو قدرتی اور انسانی وسائل کے تناظر میں پاکستان کی ترقی کے امکانات بہت روشن ہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ نیک نیتی اور تسلسل کے ساتھ معاشی حکمت عملی کو اختیار کیا جائے ۔ میثاق معیشت ، جس کی طرف شہباز شریف نے توجہ دلائی ہے اور جس پر پا کستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے بھی حمایت کا یقین دلایا ہے ، آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ معاشی منصوبہ بندی میں تسلسل اور نتیجہ خیزی کے لئے ضروری ہے کہ معاشی ماہرین پر مشتمل ایک منصوبہ بندی کمیشن مستقل بنیادوں پر فعال ہوجس کی نوعیت غیر سیاسی ہو۔ کوئی بھی معاشی منصوبہ ، خواہ قلیل المیعاد ہو یا طویل المیعاد ، کمیشن کی جائزہ رپورٹ اور سفارش کے بغیر شروع نہ کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کمیشن کی یہ ذمہ داری بھی ہو کہ وہ اس پر ہونے والے اخراجات اور اس کی تکمیل تک کے سارے مراحل کی جائزہ رپورٹ حکومت اور ذرائع ابلاغ کو فراہم کرتا رہے۔ یہ بات بھی یقینی بنائی جانی چاہیئے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے اس کمیشن کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے اور اسے پورا آئینی تحفظ حاصل ہو ۔ تب ہی یہ کمیشن اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکے گا۔ زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹکنالوجی اور سیاحت بالخصوص مذہبی سیاحت ایسے شعبے ہیں جس میں پاکستان کے پاس ترقی کے بہتر مواقع موجود ہیں ۔ 2022-23کے مالی سال کے اعداد و شمار کے مطابق قومی معیشت میں زراعت کا حصہ 22.91 % ، انفارنیشن ٹکنالوجی کا3.05 %معدنیات کا 1.59% اور سیاحت کا 1% سے بھی کم رہاہے۔ ان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان شعبوں سے متعلق تعلیم اور ٹیکنالوجی کے جدید اداروں کا پورے ملک میں جال پھیلا دیا جانا چاہیئے۔معدنیات کے بے شمار ذخائر کی موجودگی اس ریاست کا ارضی اثاثہ ہیں اس سے متعلق جدید تعلیم کے فروغ اور ٹکنالوجی کے حصول سے متعلق اب تک مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے۔معدنی ذخائر کی موجودگی اور تخمینہ کے لئے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار قومی مفادات کا سودا کرنے کے مترادف ہے ۔اس سے گریز اسی طرح ممکن ہے کہ اس شعبہ کے ماہرین مقامی ہوں ،مشینری ہماری اپنی ہو ،تخمینہ ہمارا اپنا ہو اور اس سے نکلنے والا خزانہ اس ریاست کا اور اس کے شہریوں کا ہو۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برامدآت میں اضافہ کیا جانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ 2021-22 کے مالیاتی سال میں اس شعبہ میں پاکستا ن کی برآمدات تقریبا 2.5 بلین امریکی ڈالر ز رہیں جب کہ اس د ورانیہ میں بھارت کی برآمدات 140 بلین امریکی ڈالر ز تھیں ۔ آخر کیوں ان شعبوں میں حکمرانوں نے قرارواقعی توجہ نہیں دی ۔ قدرت نے اس ریاست کو بے شمار خزانوں سے نوازا ہوا ہے ۔انسانی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ کمی ہے تو بس اخلاص کی ، دیانت داری کی اور ا س ریاست سے حکمرانوں کی وفا شعاری کی ۔ دیکھیں کب یہ نخل امید ثمر بار ہو!!!