پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت اور آبادی کے اعتبار سے پانچویں بڑی مملکت ہے ۔بیش بہاء قدرتی وسائل اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔بلند و بالا پہاڑ، سمندری ساحل، دریا ،جھیلیں،زراعت کے لئے لاکھوں ہیکٹر زرعی زمین اور چار موسموں کا تنوع اسے ریاستوں کے مابین منفرد و ممتاز کر دینے کے لئے کافی ہے۔مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنے شاندار وسائل کی موجودگی کے باوجود اقوام عالم میں پاکستان کی حیثیت اور مقام وہ نہیں ہے جو اسے حاصل ہونا چاہیئے۔اقوام عالم میں اہمیت کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کی داخلی سلامتی کی صورتحال اطمنان بخش ہو،معیشت ترقی کی طرف گامزن ہو، سیاسی استحکام ہو اور بین الاقوامی تعلقات میں دور رس اور درست حکمت عملی کا تعین ہو۔یہ وہ چار بنیادی خصوصیات ہیں جن کی موجودگی اقوام عالم میں کسی ریاست کے وقار اور مقام کا تعین کرنے کا محرک بنتی ہیں اور ریاستوں کے مابین تعلقات کی نہج استوار کرتی ہیں ۔بد قسمتی سے پاکستان میں یہ چاروں خصوصیات اپنی کمزور اور کمتر حالت میں رہی ہیں جس کے باعث اقوام عالم سے تعلقات دبائو کے زیر اثر رہے ہیں ۔ ریاستوں کے درمیان دوستی اور تعلقات کی بنیاد ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ممالک کے درمیان نہ دوستی مستقل ہوتی ہے اور نہ دشمنی ۔ہر ریاست اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لئے دوسری ریاستوں سے تعلقات استوار کرتی ہے۔ مگر پاکستان میں اس کا اطلاق بمشکل ہی ہوسکا ہے۔ ریاستوں سے تعلقات کے ضمن میں داخلی سلامتی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پڑوسی ریاستوں کے ساتھ معاملات اور تعلقات دوستانہ اور معمول کے مطابق ہوں مگر پاکستان کے لئے مختلف وجوہ کی بناء پر ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور پڑوسی ریاستوں سے تعلقات اطمنان بخش نہیں ہیں۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر موجود بھارت کے ساتھ تعلقات بالعموم خراب رہے ہیں۔ ابتدا تقسیم ہندوستان کے وقت ہی ہو چکی تھی جب مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی کوششوں سے پنجاب کی غلط تقسیم اور مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کا بھارت کے ساتھ غیر اخلاقی اور غیر قانونی الحاق ممکن ہوا۔یہ مسئلہ 1948سے اقوام متحدہ میں استصواب رائے کے لئے موجود ہے مگر تاحال ٹھوس عملی اقدام سے محروم ہے۔ کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط ہونے کے باوجود بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی آواز مو ئثر نہیں ہوسکی ۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسقل طور پر ایک وجہ نزع بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان کئی بار جنگ بھی ہو چکی ہے ۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں جنگ سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔ مذاکرات اور مفاہمت سے ہی یہ حل ہو گا ۔ اس کے لئے پاکستان کو عالمی فو رم پر اپنی آواز کو توانا کرنا ہوگا اور بھارت کو کشمیر میں استصواب رائے پر مجبور کرنا ہوگا۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب داخلی سلامتی کے تقاضے پورے ہوچکے ہوں ، معیشت اغیار کی محتاج نہ ہو اور ریاست میں سیاسی استحکام ہو۔ اسی طرح مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات پالیسوں کے عدم تسلسل کے باعث نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں۔ دسمبر 1979 میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد شروع ہونے والی افغان مزاحمت ، جسے جہاد سے تعبیر کیا گیا،میںپاکستان نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مالی اور عسکری تعاون سے مجاہدین کا بھرپور ساتھ دیا اور طالبان کو ’’ اپنے بچے‘‘ قرار دیا۔ اس دوران پاک افغان تعلقات انتہائی قریبی اور دوستانہ رہے ۔تاہم جب ستمبر 2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں اغوا شدہ طیاروں نے تباہی مچا ئی تو یہی طالبان امریکہ کے لئے نا قابل برداشت ہو گئے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر طالبان کے خلاف جنگ مسلط کردی گئی۔ طالبان سے متعلق پاکستان کی پالیسی بھی تبدیل ہوئی ۔ امریکہ کے دبائو پر اب ’’ اپنے بچے ‘‘ پرائے لگنے لگے اور پاکستان ان کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ شریک ہوگیا۔ دو دہائی کی جنگ کی ناکامی کے بعد جب امریکہ یہاں سے واپس گیا تو پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بد اعتمادی کی دراڑ پیدا ہو چکی تھی اورتعلقات بد اعتمادی کا شکار ہوگئے۔افغان طالبان سے متعلق پالیسوں کے اس قطبی انحراف نے نہ صرف پاکستان کی مغربی سرحد کو بڑی حد تک غیر محفوظ کردیا ہے بلکہ پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان نے، جو افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے خلاف جنگ میں ان کے اتحادی تھے، اس نے اب پاکستان کو اپنا ہدف بنالیا ہے اور پاکستان کی داخلی سلامتی کے لئے مسئلہ بی ہوئی ہے ۔ اس تناظر میں ایران کے ساتھ تعلقات بھی عالمی دبائو کے زیر اثر عدم تسلسل کا شکار رہے ہیں ۔ ایران سے تعلقات کی ابتدا بڑی گرمجوشی سے ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی پاکستا ن کادورہ کرنے والے پہلے حکمران تھے۔ تعلقات میں یہ دوستانہ گرمجوشی ایران میں اسلامی انقلاب آنے تک برقرار رہی ۔ 1979 میں امام خمینی کی قیادت میں انقلاب نے صورتحال کو بالکل بدل دیا۔امریکہ کے ایران سے تعلقات خراب ہوگئے۔ جس کا اثر پاکستان کی پالیسوں پر بھی ہوا۔اسی تناظر میں سعودی عرب جس کے ایران کے ساتھ مذہبی اور سیاسی اختلافات ہمیشہ کشیدگی کا باعث ر ہے ہیں ، ان میں مذید شدت پیدا ہو گئی۔پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ امریکہ اور سعودی عرب کے زیر اثر رہی ہے لہذا اس بدلتی صورتحال میں پاک۔ ایران تعلقات بھی متاثر ہوئے ۔ تیل کی فراہمی کے لئے ایران کے ساتھ پائپ لائن منصوبہ امریکہ کے دبائو کی وجہ سے ہی مکمل نہیں ہو سکا حالانکہ اس میں پاکستان کا مفاد زیادہ تھا ۔یہ ضرور ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی طرف تو کبھی نہیں گئے تاہم ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے تعلقات کی جو نہج قائم ہونی چاہیئے تھی وہ نہیں ہو سکی۔ بھارت کے ساتھ تو تعلقات تنازعات کی نذر رہے ہیں۔وہ اپنی ترقی کرتی معیشت کی بنیاد پر عالمی سطح پر اپنی آواز کو توانا رکھے ہوئے ہے۔ بے شمار داخلی مسائل کے باوجود سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل کے باعث امریکہ ،روس،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور قطر سے اس کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں ۔ چین سے سیاسی اور سرحدی اختلافات کے باوجود تجارتی تعلقات موجود ہیںاور یہ سب ریاست کے مفادات کے مضبوط اشارئیے ہیں ۔ مگر افغانستان اور ایران سے تعلقات میں پاکستان کی اپنی بنیادی کمزوریاں شامل رہی ہیں۔جس کے باعث ان ممالک سے تعلقات دبائو کا شکار رہے۔ صورتحال کی بہتری اس بات کی شدت سے متقاضی ہے کہ : ملک میں سیاسی استحکام ہو ۔ قومی وسائل کی بنیاد پر معیشت کی ترقی ہو۔ داخلی سلامتی کی صورتحال اطمنان بخش ہو۔ پالیسیوں میں تسلسل ہو۔ قومی مفادات کو ہر صورت مقدم رکھا جائے۔یہ کیسے اور کب ہو پائیگا یہ تو نہیں معلوم ۔مگر یہ کرنا ناگزیر ہے، اتنا ضرور جانتا ہوں۔