پریڈ لین راولپنڈی کی مسجد میں4 دسمبر 2009ء کی نمازِ جمعہ سے پہلے امام صاحب کی تقریرکے بعد نمازی سنتیں ادا کر رہے تھے۔پریڈ لین کے رہائشی کرنل غلام رسول قیصر اس روز کچھ تاخیر سے گھر پہنچے تھے۔دو بہنوں کا اکلوتا بھائی، میٹرک کا طالبعلم محمد علی مسجد جانے کے لئے ان کا منتظر بیٹھا تھا۔ باپ بیٹا مسجد پہنچے تو خود کُش حملہ آور مسجد کے دروازے پر پہلے سے موجود تھا۔بیٹے کو اتار کر کرنل قیصر گاڑی پارک کررہے تھے کہ پہلا خود کش دھماکہ ہو گیا۔ کرنل قیصر پہنچے تو بیٹے کو مسجد کے دروازے کے سامنے زمین پر گرے ہوئے پایا۔باپ نے جوان سال بیٹے کے جسدِ خاکی کو بازئوں میں بھرا،کچھ دور مسجد کے پہلو میں ایک دیوار کے سائے میں ڈال کر اکلوتے لختِ جگرکا سر گود میں لے لیا۔ کچھ اور خود کش دھماکوں کے بعداب دہشت گرد نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ اور مسجد کے بالائی حصے پر ہینڈ گرینیڈ پھینک رہے تھے۔ مسجد کے اندر نہتے نمازیوں کے جسم گولیوں کی بوچھاڑ، خود کش بمباروں کے دیسی ساختہ بارودی مواد میں بھری میخوں اور ہوا میں اڑتے گرنیڈز کے آہنی ٹکڑوں سے چھلنی ہو تے جا بجا گر رہے تھے۔کچھ نہتے نمازیوں نے پلٹ کر کچھ مزاحمت کی کو شش کی ۔ بتایا جاتا ہے میجر جنرل بلال عمرنے بھی ایک دہشت گرد سے بندوق چھینا چاہی تھی۔پریڈ لین کو اب اسی شہید جنرل کے نام سے جانا جاتا ہے۔جنرل بلال کے علاوہ کتنے ہی ایسے ہوں گے جن کی جرآت اوربے خوفی کی داستانیں نہ تو سنی اور نہ ہی سنائی جا سکیں ۔ میرا عزیزکورس میٹ کرنل محبوب احمد چوہدری ، نمازیوں کی دوسری صف میں بیٹھا تھا۔ حملہ ہوا تو محبوب نے قریب بیٹھے میجر شاہنواز کو برابر والی کھڑکی سے باہر نکل جانے کا مشورہ دیا۔ شاہنواز کے ساتھ اس کے ضعیف والد بیٹھے تھے۔بیٹے نے نحیف والد کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران کرنل محبوب کی دونوں رانوں میں ایک ایک گولی لگی۔بائیں ٹانگ میں گولی نے ہڈی کو کاٹا تو ٹانگ الٹاگھوم گئی۔ محبوب کے لئے اب ایک قدم اٹھانا ممکن نہ تھا۔قیامت کے اس عالم میںدو افراد کہیں سے آئے ،سہارا دے کر شدیدزخمی محبوب کوگولیوں کی بوچھاڑ اور بارود کی بارش کے بیچ مسجد سے نکال کرباہرمحفوظ مقام تک لے آئے۔ محبوب کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کی آنکھوں کے سامنے ہم تینوں کا یوں سڑک پار کرنا معجزے سے کم نہ تھا۔ محبوب کو یہ تو یاد ہے کہ ایک طرف سے بریگیڈیئر تصوراسے تھامے ہو ئے تھے، دوسرے کندھے کے نیچے کون تھا،اسے یاد نہیں۔ محبوب آج بھی بریگیڈئیر تصورکے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے گمنام محسن کو یاد کرتا ہے۔ حملے کے دوران مسجد کی بالائی منزل پر نوجوان لڑکے، عمر رسیدہ جنرل یوسف( سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف) کو اپنے حفاظتی حصار میںلئے ہوئے تھے۔ دہشت گرد بالائی منزل پر ہینڈ گرینیڈ پھینکتے تو نوجوان اچک کر پکڑتے اور واپس دہشت گردوں کی طرف پھینک دیتے۔ انہی نوجوانوں میں بریگیڈیئر شکران کا بیٹا حسن اور ایک چودہ سالہ لڑکا سلمان مشتاق بھی شامل تھے۔ ایک ہینڈ گرینیڈ حسن اور ایک سلمان کے ہاتھوں میں پھٹا۔ حسن نے موقع پر شہادت پائی۔ سلمان کہنی تک کٹے دائیں بازو کو دیکھ کر آج بھی ان قیامت خیز لمحات کو یاد کرتا ہے۔ 4دسمبر2009 ء کی سہ پہر کو ہی کرنل(بعد ازاں بریگیڈیئر) شبیر حسین فریضہ حج کی ادائیگی کے بعدگھر لوٹ رہے تھے۔شبیر اور میں نے عشروں پہلے ایک ہی یونٹ میں کمیشن لیا تھا۔ خوش گلو، ہر دم خوش باش میرا یہ دوست اسلام آباد ائیرپورٹ سے باہرنکلا تو پوچھا،’ علی حسن کہاں ہے؟‘ پیریڈ لین سانحے میںاپنے نوجوان حافظ قرآن بیٹے کو کھونے کے بعد بھی شبیر نے زندگی بظاہر ہنستے مسکراتے ہی گزاری۔جی کا جانا مگر ٹھہر گیا تھا۔ ایک روز علی الصبح بیدار ہوا۔ نماز فجر اپنے کمرے میں ادا کی۔اٹھا اور بستر کے ایک پہلو پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد کمر کے بل لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ تھکا ہارا مسافر جیسے منزل پر پہنچ گیا ہو۔ میرے ایک اور پیارے یونٹ آفیسر کرنل منظور سعید نے بھی اسی حادثے میں جامِ شہادت نوش کیا۔ کوئٹہ میں اپنی پہلی یونٹ میں میرے آخری مہینے تھے۔ سوات سے تعلق رکھنے والا سیکنڈ لیفٹیننٹ منظور پی ایم اے سے پاس آئو ٹ ہو کر یونٹ پہنچا تو چند ہی روز میں منظور کے ساتھ دوستی کا رشتہ عمر بھر کے لئے استوار ہو گیا۔ منظور سعید کی بیوہ نے منظور کے بعد کے برس اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ صبر اور استقامت کے ساتھ کاٹے ہیں۔ پریڈ لین کا سانحہ ہوا تو جنرل مسعود اسلم پشاور کور کے کمانڈرتھے۔مسجد کے اندر شہید ہونے والوں میں ان کا اکلوتا صاحبزادہ ہاشم بھی شامل تھا۔نوجوان ہاشم نسٹ اسلام آباد میں زیرِ تعلیم اور پریڈ لین میں مقیم تھا۔مجھے جنرل مسعود کے ماتحت کبھی سروس کا موقع نہیں ملا۔ تاہم ان کی ایک پیشہ ورانہ سپاہی اور عمدہ اخلاق والے انسان کی شہرت سے میں ہمیشہ واقف رہا ہوں۔مجھے اخباروں میں چھپی اُن کی وہ تصویر یاد ہے، جس میں وہ اپنے بیٹے کے تابوت کے سرہانے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جواں سال بیٹے کو کھوکر ان کے دل پر کیا گزری ، اسے لفظوں میں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ بے چہرہ جنگ میں لاتعداد شہیدوں اور غازیوں کے کمانڈر کا حوصلہ مگر انہوں نے خوب دکھایا۔ کہتے ہیں جب کوئی المناک سانحہ گزرتا ہے توانسان درد سے تڑپ اٹھتا ہے۔کہتے ہیںگزرتا وقت جب مرہم کا کام کرتا ہے تودل کو کچھ قرار آجاتا ہے۔دل کو قرار تو آجاتا ہے مگر گزرتے دن، کرب کے مہینوں ، اور کرب کے مہینے عمر بھر کی اداسی میں بدل جاتے ہیں۔ پریڈ لین شہداء کے لواحقین کئی برسوں سے عمر بھر کی یہی اُداسی کاٹ رہے ہیں۔ اکلوتے نوجوان بیٹے کو کھو دینے والے کرنل غلام رسول قیصر کی بیگم آج بارہ سال بعد بھی کسی سائرن کی آواز سنتی ہیں تو بے اختیار4دسمبر 2009ء کی سہ پہر پریڈ لین میںدیوانہ وار گھومتی ایمبولینسوں کا شور ان کے کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔تاہم دونوں میاں بیوی اللہ کی رضا میں خود کو راضی کہتے ہیں۔ دونوں کو اپنے محمد علی سے روزِ محشر ملاقات کا پورایقین ہے۔ دونوں کو یہ بھی یقین ہے کہ ان کا محمد علی ماں باپ کی بخشش کا وسیلہ بنے گا۔ پریڈ لین کے 40 شہداء اور 80 سے زائد زخمیوں کے لواحقین کا تذکرہ ایک اخباری کالم میں ممکن نہیں۔ خدا کے یہ صابرو شاکربندے شہرت کے طالب بھی نہیں۔ کسی نے اِن میں سے کسی کو کسی سرکاری عمارت کے باہرکیمروں کے سامنے کھڑے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ہر سال جنرل مسعود اسلم کے ہاں یا کسی اور مقام پر اکٹھے ہوکر خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کا دکھ بانٹے ہیں۔ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔اَوروں سے بھی بس یہی چاہتے ہیں۔