جی نہیں چاہتا کہ اپنے ڈوبتے،تعفن پھیلاتے،اور ہر لمحے فشار خون بلند کرتے سسٹم کی بات کروں۔وہ سسٹم جسے اب ابدی نیند سُلا دینا چاہیے،اس کی بساط لپیٹ دینی چاہیے۔دعوے،نعرے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور جھوٹ اور مکاری کے نشانات باقی رہے۔ہمار ے باغ کے پیڑوں کی ہر شاخ پر بیٹھے اُلّوکیا گل کھلائیں ؟کوئی پشین گوئی کرنا ممکن نہیں رہا ،جانے کب کیاسانحہ ہماری راہ میں آجائے۔کوئی رجل رشید دور دور تک نہیں ہے۔کوئی ہوتا جو اٹھتا اور تجدیدکا عزم کرتا۔ اِسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز جنہوں نے شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے باپ کو مصر جیسے عظیم الشان صوبے کا گورنر پایا۔ جوان ہوئے تو اموی سلطنت کے ماتحت گورنری پر مامور ہوئے۔ شاہانِ بنی امیہ نے جن جاگیروں سے اپنے خاندان کو مالا مال کیا تھا ان میں ان کا اور ان کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا، حتّٰی کہ ان کی ذاتی جائیداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ رئیسوں کی طرح پوری شان سے رہتے تھے، لباس، خوراک، سواری، مکان، عادات و خصائل سب وہی تھے جو شاہی حکومت میں شاہ زادوں کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ماحول اس کام سے دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا تھا جو بعد میں انھوں نے انجام دیا۔ لیکن ان کی ماں حضرت عمرؓ کی پوتی تھیں۔جب ۳۷ سال کی عمر میں بالکل اتفاقی طور پر تخت شاہی ان کے حصے میں آیا اور انھوں نے محسوس کیا کہ کس قدر عظیم الشان ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے تو دفعتاً ان کی زِندگی کا رنگ بدل گیا۔ انھوں نے کسی ادنیٰ تامل کے بغیر جاہلیّت کے مقابلے میں اِسلام کے راستے کو اپنے لیے منتخب کیا کہ گویا یہ ان کا پہلے سے سوچا ہوا فیصلہ تھا۔ تخت شاہی انھیں خاندانی طریق پر ملا تھا مگر بیعت لیتے وقت مجمع عام میں صاف کہاکہ مَیں اپنی بیعت سے تمھیں آزاد کرتا ہوں، تم لوگ جسے چاہو خلیفہ منتخب کر لو۔ جب لوگوں نے برضا و رغبت کہا کہ ہم آپ ہی کو منتخب کرتے ہیں، تب انھوں نے خلافت کی عنان اپنے ہاتھ میں لی۔پھر شاہانہ کروفر، فرعونی انداز، قیصر و کسریٰ کے درباری طریقے، سب رخصت کیے اور پہلے ہی روز لوازمِ شاہی کو ترک کرکے وہ طرز اختیار کیا جو مسلمانوں کے درمیان ان کے خلیفہ کا ہونا چاہیے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تنخواہ تک نہ لی۔ اپنی زِندگی کا سارا نقشہ بدل دیا۔ خلیفہ ہونے سے پہلے شاہانہ شان کے ساتھ رہتے تھے، خلیفہ ہوتے ہی فقیر بن گئے۔ گھر اور خاندان کی اس اصلاح کے بعد نظامِ حکومت کی طرف توجہ کی۔ ظالم گورنروں کو الگ کیا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کرصالح آدمی تلاش کیے کہ گورنری کی خدمت انجام دیں۔ تمام ناجائز ٹیکس جو شاہانِ بنی امیہ نے عائد کر دیے تھے، جن میں آبکاری تک کا محصول شامل تھا، یک قلم موقوف کیے۔ زکوٰۃ کی تحصیل کا انتظام ازسر نو درست کیا اور بیت المال کی دولت کو پھر سے عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو ناانصافیاں کی گئی تھیں ان سب کی تلافی کی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھوں سے اسلامی نظام حکومت دوبارہ زندہ ہوا۔ انھوں نے سیاسی اقتدار سے کام لے کر لوگوں کی ذہنی،اخلاقی اور معاشرتی زِندگیوں سے جاہلیّت کے اُن اثرات کو نکالنا شروع کیا جو نصف صدی کی جاہلی حکومت کے سبب سے اجتماعی زِندگی میں پھیل گئے تھے۔ فاسد عقیدوں کی اشاعت کو روکا۔ شراب نوشی، اور عیش و تنعم کی بیماریاں جو شاہی نظام کی بدولت پیدا ہو چکی تھیں ۔بہت ہی قلیل مدت میں اس انقلابِ کے اثرات عوام کی زِندگی پر اور بین الاقوامی حالات پر مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ ایک راوی کہتا ہے کہ ولیدؓ کے زمانے میں لوگ جب آپس میں بیٹھتے تو عمارات اور باغوں کے متعلق گفتگو کرتے۔ سلیمان بن عبدالملک کا زمانہ آیا تو عوام کا مذاق شہوانیت کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر عمر بن عبدالعزیز ؒحکم ران ہوئے تو حالت یہ تھی کہ جہاں چار آدمی جمع ہوتے نماز، روزہ اور قرآن کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔مملکتِ اسلامی کے اطراف میں جو غیر مسلم ریاستیں موجود تھیں، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے انھیں اِسلام کی طرف دعوت دی اور ان میں سے متعدد ریاستوں نے اس دین کو قبول کر لیا۔ اسلامی حکومت کی سب سے بڑی حریف سلطنت اس وقت روم کی سلطنت تھی جس کے ساتھ ایک صدی سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس وقت بھی سیاسی کش مکش چل رہی تھی۔ مگر عمر بن عبدالعزیزؒ کا جو اخلاقی اثر روم پر قائم ہوا اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو ان کے انتقال کی خبر سن کر خود قیصر روم نے کہے تھے۔ اس نے کہا کہ: ’’اگر کوئی راہب دُنیا چھوڑ کر اپنے دروازے بند کرلے اور عبادت میں مشغول ہو جائے تو مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ مگر مجھے حیرت ہے تو اس شخص پرہے جس کے قدموں کے نیچے دُنیا تھی اور پھر اسے ٹھکرا کر اس نے فقیرانہ زِندگی بسر کی۔‘‘ اِسلام کے مجدّدِ اوّل کو صرف ڈھائی سال کام کرنے کا موقع ملا اور اس مختصر سی مدت میں اس نے یہ انقلاب عظیم برپا کرکے دکھا دیا۔ مگر بنی امیہ سب کے سب اس بندئہ خدا کے دشمن ہو گئے۔ اِسلام کی زِندگی میں ان کی موت تھی۔ وہ اس تجدید کے کام کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔ آخر کا سازش کرکے انہیںزہر دے دیا اور صرف ۳۹سال کی عمر میں یہ خادمِ دین و ملت دُنیا سے رخصت ہو گیا۔ جس کارِ تجدید کو اس نے شروع کیا تھا، اس کی تکمیل میں اب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی تھی کہ خاندانی حکومت کو ختم کرکے انتخابی خلافت کا سلسلہ پھر سے قائم کر دیا جاتا۔ یہ اصلاح اس کے پیش نظر تھی اور اس نے اپنے عندیہ کا اظہار بھی کر دیا تھا، مگر اموی اقتدار کی جڑوں کو اجتماعی زِندگی سے اکھاڑنا اور عام مسلمانوں کی اخلاقی و ذہنی حالت کو خلافت کا بار سنبھالنے کے لیے تیار کرنا آسان کام نہ تھا کہ ڈھائی برس کے اندر انجام پا سکتا۔کاش !کوئی رجل رشید ہوتاجوپون صدی میں اس اندھیرے میں روشنی کی کرن لاسکتا۔