نجی سودی قرضوں پر پابندی کا قانون خیبر پختون خوا اور پنجاب میں 2007ء میں نافذ ہوا۔اس قانون نے نجی سطح پر سودی قرضے دینے کو قابلِ دست اندازیِ پولیس، ناقابلِ ضمانت اور ناقابلِ صلح جرم قرار دیا اور اس جرم پر 10 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں مقرر کی گئیں۔ یہی قانون 2014ء میں بلوچستان میں بھی نافذ ہوا۔ 2016ء میں خیبر پختون خوا میں اس موضوع پر نیا تفصیلی قانون نافذ کیا گیا جس میں ایک تو "سود" کی تعریف شامل کی گئی اور قرار دیا گیا کہ "قرض یا دَین" کی کسی صورت میں بھی اصل زر پر لیا جانے والا اصافہ سود میں شامل ہے، خواہ وہ قرض ذاتی ضرورت کیلئے لیا گیا ہو یا تجارتی غرض سے ، خواہ وہ اضافہ کتنا ہی معمولی ہو، اور خواہ اسے سود کا نام دیا جائے یا کچھ اور۔"قرض یا دَین" کی توضیح یہ کی گئی کہ چاہے وہ رقم کی صورت میں یا اجناس کی شکل میں (جیسے گندم، جو یا کوئی اور چیز دی جائے)، بشرطیکہ اس کی واپسی لازم ہو، خواہ واپسی کیلئے وقت مقرر کیا گیا ہو یا مطالبے پر ادائیگی لازم کی گئی ہو۔ اصل زر سے مراد وہ رقم ہے جو حقیقتاً دی گئی ہو۔ مثلاً قرض دینے والی کمپنیاں اگر 50 ہزار روپے کا قرض دے رہی ہیں تو حقیقت میں وہ 38500روپے دیتی ہیں کیونکہ 25 فی صد کٹوتی وہ ابتدا میں ہی کرلیتی ہیں۔ اس قانون کی رو سے اس صورت میں اصل زر 38500روپے ہی ہیں۔ ان تعریفات کی وجہ سے قانون کے مفہوم میں بہت وسعت بھی آگئی اور اس کے اطلاق میں بہت سہولت بھی پیدا ہوگئی۔ مقروض کو "تنگ کرنے" کی توضیح بھی اس قانون میں کی گئی اور قرار دیا گیا کہ کسی شخص کو ڈرانا دھمکانا، اس کے مال یا جائیداد سے اسے روکنا یا اس کے استعمال کو مشکل بنانا، یا اس کے اہلِ خانہ پر دباؤ ڈالنا، یہ سب امور اس میں شامل ہیں۔ نیز قرض دینے والے کی تعریف میں اس کے ایجنٹ، ماتحت اور عملے کو بھی شامل کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر قرض دینے والا صوبے سے باہر رہائش پذیر ہو، لیکن اس کا ایجنٹ صوبے میں ہو، تو اس ایجنٹ کو ہی قرض دینے والا تصور کیا جائے گا اور اس پر اس قانون کا اطلاق کیا جائے گا۔ اس نئے قانون نے نجی سودی کاروبار پر کم از کم 3 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال تک قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں مقرر کیں۔ نیز سودی کاروبار میں اعانت کرنے کو بھی قابلِ سزا جرم بنا کر اس پر یہی سزائیں مقرر کیں۔ اس کے علاوہ مقروض کو تنگ کرنے پر الگ سے 5 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں مقرر کیں۔ یہ بھی تصریح کی گئی کہ اگر کسی نے پہلے ہی سے سود کی مد میں کچھ ادائیگی کی ہو، تو اسے اصل زر میں شمار اور ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ اس نئے قانون کو 2019ء میں وفاقی دار الحکومت میں، 2022ء میں پنجاب میں اور اب جولائی 2023ء میں سندھ میں بھی نافذ کیا گیا۔ (البتہ بلوچستان میں ابھی تک قانون پرانی صورت میں نافذ ہے۔) اس قانون کی زد سے بچنے کیلئے نجی سودی کاروبار کرنے والے افراد "نان بینکنگ فنانشل کمپنی " بنانے کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور اس مقصد کیلئے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے پہلے لائسنس اور اس کے بعد "انکارپوریشن" کی سند لے لیتے ہیں۔ پھر اگلے مرحلے میں ایک موبائل ایپ بنا کر "ڈیجیٹل لینڈنگ" یقینی بنا لیتے ہیں کیونکہ قرض دینے والے اور لینے والے کے درمیان فزیکلی ملنا ضروری نہیں ہوتا اور سب کچھ آن لائن ہی ہوتا ہے۔ قرض لینے والے سے عموماً اس کے شناختی کارڈ کے علاوہ دو مزید افراد کے نمبر لیے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان دو افراد کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ان ایپس میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے یہ کمپنیاں اپنے کلائنٹ کے موبائل میں موجود معلومات تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں۔ اس معاملے میں نظر رکھنے کی ذمہ داری سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی ہے لیکن وہ صرف "سرکلر" جاری کرنے کو ہی کافی سمجھتا ہے۔ قرض دیتے ہوئے کمپنی عموماً سروس اور پروسیسنگ فیس کے نام پر ابتدا میں ہی 25 فی صد فوری کٹوتی کرتی ہے۔ تقریباً ایک مہینے تک "بغیر سود"کے واپسی کا موقع ہوتا ہے لیکن واپسی اس پوری رقم کی کرنی ہوتی ہے جسے قرض کہا جاتا ہے، خواہ حقیقت میں مقروض کو اس کا 75 فی صد ملا ہو۔ بعض اوقات مدت میں توسیع کی سہولت بھی دی جاتی ہے، پھر ہر دن 2 فیصد "جرمانے" کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ عدم عدائیگی پر مقروض کو "بلیک لسٹ" کیا جاتا ہے اور "تصدیق" نامی سوفٹ ویئر میں اس کا شناختی کارڈ نمبر ڈالا جاتا ہے۔ بینکنگ کورٹ میں مقدمے کا بھی امکان ہوتا ہے ، لیکن کمپنیاں عموماً اس لمبے چکر میں نہیں پڑتیں۔ اس کے بجائے ان کے ایجنٹ ڈیٹا لیک کرنے کی اور اس طرح کی دوسری دھمکیاں دیتے ہیں جن کی بنا پر بعض اوقات کوئی اس حد تک پریشان ہوجاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ایف آئی اے کے چھاپے شروع ہوجاتے ہیں اور چند دن کی سرگرمیاں ہوتی ہیں، پھر چل سو چل۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس قانون کا اطلاق نجی سودی کمپنیوں پر نہیں ہوتا؟ اس قانون کے بنانے کے وقت حکومت کے اصرار پر اس کے اطلاق سے بینکوں اور "مالیاتی اداروں" کو مستثنی کیا گیا تھااور مالیاتی اداروں کی تعریف وہی مقرر کی گئی تھی جو 2001ء کے فنانشل انسٹی ٹیوشنز (ریکوری آف فنانس) آرڈی نینس میں دی گئی تھی۔ نجی سودی کاروبار کرنے والی کمپنیوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اس تعریف میں شامل ہیں اور اس وجہ سے اس قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا۔ کیا واقعی ایسا ہے اور کیا اس طرح اس قانون کا اصل مقصد ہی فوت نہیں ہوجاتا؟ یہ تو گویا آپ نے نجی سطح پر سود کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے ادارہ جاتی شکل دے کر منظم کردیا ہے۔ اس قانون کی دفعہ 14 میں تصریح کی گئی ہے کہ اسے دیگر قوانین پر بالاتر حیثیت حاصل ہے، نیز دفعہ 17 میں قرار دیا گیا ہے کہ اس قانون اور اس سے متعلق امور کی تعبیر و تشریح قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کی روشنی میں کی جائے گی۔ اس لیے نجی کمپنیوں کی اس تعبیر کو عدالت میں چیلنج کرنا ضروری ہے۔ نیز مقننہ کے ذریعے مالیاتی اداروں کو حاصل استثنا کو ختم کرنے کی کوشش بھی لازم ہے۔ آخری بات۔ جو کچھ یہ نجی سودی کمپنیاں لوگوں کے ساتھ کرتی ہیں، وہی کچھ عالمی سودی ادارے ریاستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ریاست کے قرضوں سے اصل میں فائدہ اٹھانے والے افراد ریاست کی اعتباری شخصیت کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور قرضوں اور سود کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کردیتے ہیں۔