ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی’ قوموں کے شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ ‘ دقیق فلسفانہ زبان کی بجائے عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے۔ کتاب کا بنیادی موضوع اگرچہ مسلمانانِ عالم میں عقلیت پسندی کا زوال ہے،تاہم مختلف تاریخی ادوار کا جائزہ لے کر اور تاریخ ساز مورخین کے افکار و نظریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عروج کی طرح قوموں کا زوال بھی مستقل نہیں ۔ ابنِ خلدون نے قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد ’عصبیّت‘ پر رکھی ہے۔ لفظ ’عصبیّت ‘ عام طور پر اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔’ عصبیّت سے مراد دوسرے گروہ، قوم ، ملک ، مذہب وغیرہ سے نفرت کا پہلو نمایاں سمجھا جاتا ہے‘۔ڈاکٹر آغا کے مطابق ابنِ خلدون نے لفظ ’عصبّیت‘ کو نئے معنی دیئے ہیں کہ جس کے مطابق ’عصبیّت ‘ سے مراد وہ قوت ہے جو کسی گروہ یا قوم میں محبت ، اخوت اور یک جہتی کے شدید احساسات سے پیدا ہوتی ہے۔ جب افراد مل کر ایک گروہ بن جاتے ہیں اور گروہ قبیلے بن جاتے ہیں، قبیلے قوم بن جاتے ہیں تو ان کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کی بقا اور ترقی کے لئے ایک شدید قسم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اس جذبے کا برقرار رہنا قوم کی بقا اور ترقی کے لئے اشد ضروری ہوتا ہے۔ ابن خلدون کی رائے میں جس طرح انسان پرشباب آتا ہے اور اس کے بعد ضعیفی ، اسی طرح قومیں بھی اسی قسم کی منازل سے گزرتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے، ابنِ خلدون نے قوموں کے کم زور ہونے کی تین بڑی وجوہات بیان کی ہیں۔ اولاََ،عیش و عشرت میں ضرورت سے زیادہ اضافہ۔ ثالثاََ ، عصبیّت میں کمی۔ اور آخر میں معاشی بد حالی۔ابنِ خلدون کے مطابق قوموں میں زوال کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے ’جب برسرِ اقتدار گروہ ملک کی پیداوارکے تمام وسائل پر قبضہ کر لیتا ہے اور دیگر تمام طاقتورطبقات مثلاََ فوج وغیرہ کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیتا ہے‘۔عوام پیداوار کے ذمہ دار ہو تے ہیں۔ تاہم ان کی محنت سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے وہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ ’حاکم گروہ جب پیداوار کے تمام وسائل پر قابض ہو جاتا ہے تو حاکم طبقے، سرمایہ داروں اور عوام کے درمیان ’عصبیّت‘ متاثر ہوتی ہے‘۔چنانچہ تینوں طبقے باہم دست وگریبان ہو جاتے ہیں اور کوئی طاقت ور قوم حملہ آور ہو کر ان پر غالب آجاتی ہے۔ اگرچہ ابنِ خلدون نے اپنے تجزیئے کی بنیادبنی امیہ اور بنی عباس کی سلطنتوںکے عروج و زوال کے مطالعے کو بنایا ہے، تاہم ابن خلدون سے کئی صدیوں بعد یورپ کے عروج،عثمانی، مغل اور چینی بادشاہتوں کے زوال کے پسِ پشت بھی عصبیّت میں کمی اور اس کے نتیجے میں معاشی بد حالی ہی نظر آتے ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے تین اسباب جو ابنِ خلدون نے بیان کئے، ا ن کی روشنی میں ہم اپنے حالاتِ حاضرہ کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں قوموں کے عروج وزوال کے باب میںہی فلسفی کانٹ کے نظریات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کانٹ کا خیال ہے کہ تمام انسانوں میں مل جل کر رہنے ، ایک معاشرہ بنانے اور ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے کی فطری خواہش موجود ہے۔کانٹ کا خیال ہے کہ خدا انسان کی ترقی چاہتا ہے اور یہ کہ انسان نے خدا کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتیوں کو بروئے کار لا کر ترقی کی کئی منازل طے بھی کی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ آج کا انسان صدیوں پرانے انسان سے کئی لحاظ سے بہتر ہے۔ مثال کے طور پر آج کا انسان دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناتا بلکہ زیادہ سے زیادہ روادار اور جمہوریت پسند ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کانٹ کا خیال ہے کہ مذہب انسان کے لئے رحمت بن کر آیا ہے۔چنانچہ ان سب اسباب کے پیشِ نظر کانٹ ایک’عالمی ریاست‘ کا نظریہ پیش کرتاہے۔ تاہم قوموں کی تاریخ میں نا انصافی، ظلم اور طاقت آزمائی پر مبنی انسانی رویوں کو دیکھ کر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ انسان کے ارتقا کی یہ آخری منزل نہیںکیونکہ ’اگر فطرت کے اس شاہکار کی حالت یہی ہے جو تاریخ میں ہمیں نظر آتی ہے تو پھر اربابِ قضا و قدر کی دانش میں شبہ پیدا ہوتا ہے‘۔زیرِ نظر کتاب میں کانٹ کے نظریہ آزادی کو زیرِ بحث لاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کانٹ ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جو نہ تو سخت گیر ہو اور نہ بالکل آزاد۔کانٹ کے نزدیک آزادی فکر اور دوسروں پر تنقید کے حق کے باوجود آزادی کی حدود نہایت صاف طور پر متعین ہونی چاہئیں۔ کانٹ کے نظریہ آزادی کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک فلسفی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ روشنی ایک حد سے بڑھ کر ظلمت کا روپ دھار لیتی ہے۔ چنانچہ جہاں حقوق کی حفاظت ہر انسان کا فریضہ ہے، وہیں جب یہ خواہش حد سے بڑھ جائے تو خود غرضی بن جاتی ہے۔ شپنگلزکے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تمام تہذیبیںبچپن، جوانی ،بڑھاپے اور موت کے مدارج سے گزرتی ہیں۔ چنانچہ ہم قوموں کے مجموعی رویوں کو دیکھ کر حساب لگا کر بتا سکتے ہیں کہ کوئی قوم کس دور سے گزر رہی ہے۔ سال 1936ء میں وفات پانے والے شپنگلز کے نزدیک’ مغربی تہذیب اپنے آخری دور میں ہے‘۔اسی کتاب میں ایک اور مورخ ٹائن بی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تاریخ عالم میں ابھرنے والی 28 میں سے اٹھارہ تہذیبین فنا ہو چکی ہیں۔ نو زوال پذیر ہیں، جبکہ صرف مغربی تہذیب اپنے عروج پر ہے ۔ غالب امکان یہی ہے کہ ا س کا زوال بھی شروع ہو چکا ہے۔ غامدی صاحب کا خیال ہے کہ سامی نسل کے زوال کے بعد یافت کی اولاد (یوروایشین) دنیا پر حکمران ہے۔چنانچہ اس وقت دنیا میں مغربی طرزِ جمہوریت، مغرب کے طے کردہ انسانی حقوق، شخصی آزادیاں اورطرزِ بود و باش ہی سکہ رائج لالوقت ہیں۔چنانچہ انہی کی آڑ میں مغربی اقوام کمزور قوموں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے ظلم و نا انصافی پر مبنی اپنے نو آبادیاتی ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں۔تاہم ٹائن بی کے حوالے سے ہی زیرِ نظر کتاب میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ارد گرد اور دور دراز علاقوں میںمسلسل جنگوں کی بنا پر ہی طاقتور قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں۔سلطنتِ روما اس کی ایک بڑی مثال ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کے باب میں مبادی ، اصول ہمیشہ کے لئے طے کر دیئے اور فرمایا کہ اس باب میں وہ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا۔اس کے ہاں دن ہماری طرح گھنٹوں کے حساب میں نہیں بلکہ ہمارے ہاں کے کئی ہزار دنوں کے برابر ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کے باب میں خدا کی سنت کو سامنے رکھا جائے تو کئی عوامل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا دور زرد قوموں(Yellow Races)کے عروج کا ہے۔ ٭٭٭٭