ہمارے ہاں نگران وزیر اعظم اس لیے برسراقتدار آتے ہیں کہ وہ شفاف الیکشن کروا کر اور ’’اقتدار‘‘ نو منتخب حکومت کو سونپ کر واپس چلے جائیں۔کئی بار یہ بھی ہو جاتا ہے کہ ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اُن سے وہ وہ کام لیے جاتے ہیں جو منتخب جمہوری حکومتوں سے نہ لیے جا سکے ہوں۔ اس وقت نگران وزیر اعظم انوارلحق کاکڑ امریکا میں بیٹھے پاکستان کے مسائل پر بین الاقوامی حلقوں سے بات کر رہے ہیں! جبکہ اسی حوالے سے گزشتہ روز ایک بیان بھی جاری کر دیا ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد سابق وزیراعظم عمران خان یا جیل کاٹنے والے پارٹی کے سینکڑوں ارکان کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔وہ امریکا میں اے پی نیوز ایجنسی کو انٹرویو دے رہے تھے، وہ مزید فرماتے ہیں کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی کارکن توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ان کے مطابق تحریک انصاف کے ایسے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔میں عمران خان سمیت کسی سیاست دان سے ذاتی انتقام پر عمل پیرا نہیں، اگر کوئی قانون شکنی پر گرفت میں آیا ہے تو قانون کی بالادستی یقینی بنائیں گے، انتخابات فوج یا نگران حکومت نے نہیں الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں وغیرہ وغیرہ… بادی النظر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے بعد کاکڑصاحب امریکا کو محض اعتماد میں لینے کیلئے وہاں موجود ہیں کہ ہم اگر الیکشن کروائیں گے تو ایک بڑی جماعت کے بغیر کروائیں گے، اور ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوگا اور امریکا و پاکستان کی دوستی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اگر میں یہاں غلط ہوں تو بتایا جائے کہ اُنہیں پانچ روزہ دورے کے بعد اب تک واپس نہیں آجانا چاہیے تھا؟یقینا آجانا چاہیے تھا، لیکن ایسا کرنے سے یقینا حالات اُن کے لیے ساز گار نہیں ہوں گے اور اُن پر جلد یا بدیر یہ الزام بھی لگ سکتا ہے کہ نگران حکومت ن لیگ کی ’’بی ٹیم‘‘ ہے ۔یقین مانیں! اگر ایسا ہوا تو کیسے ممکن ہے کہ شفاف الیکشن کا خواب پورا ہوسکے۔ بقول شخصے !اگر ایسا حقیقت میں یا بیک سٹیج ہے تو پھر میرے خیال میں بغیر الیکشن کے ہی اقتدار ن لیگ کے حوالے کردینا چاہیے۔کیوں کہ بقول پیپلزپارٹی اس وقت ماسوائے ایک جماعت کے کسی جماعت کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہی میسر نہیں ہے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ فیئر انتخابات ہوں۔اور پھر میاں نواز شریف 21اکتوبر کو واپس آرہے ہیں تو ایسے میں اُنہیں ضرور کہیں نہ کہیں سے سبز جھنڈی دکھائی گئی ہے، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اگر اُنہیں کسی کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں تو پھر ن لیگ کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ کہاں گیا؟ کہاں گئی وہ ووٹ کو عزت دو والی رمک دمک؟ اور کہاں گئی وہ بیماری جس میں پلیٹ لیٹس کم ہوتے ہوتے آخری سٹیج پر آگئے تھے؟ میرے خیال میں تو اُن سے بیسیوں گنا بہتر 804نمبر قیدی ہے، جس کے بارے میں ان کے سبھی مفروضے اور دور کی کوڑیاں دھری کی دھری رہ گئی ہیں۔ خیر اگر کوئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے بغیر یا اُس کی قیادت کے بغیر الیکشن چاہ رہا ہے تو مجھے بتائیں کہ ان کو تاریخ کن الفاظ میں یاد رکھے گی؟ میرے خیال میں اگر الیکشن اُس طریقے سے کروائے گئے جس طریقہ کار کا ذکر موصوف وزیر اعظم کر رہے ہیں تو پھر استحکام ممکن نہ ہوگا! اور پھر اگر کسی کو اس حوالے سے شک ہے کہ ایسے الیکشن سے ملک مزید غیر مستحکم نہیں ہوگا تو وہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لے کہ بھٹو سے لے کر آج تک سبھی جماعتوں نے شفاف الیکشن کے حوالے سے ہمیشہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہے، جس سے ملک ہمیشہ غیر مستحکم ہوا ہے۔ جیسے بھٹو دور میں 1970میں دھاندلی بعد از انتخابات یوں ہوئی کہ ان میں اکثریتی طور پر جیت کر آنیوالی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے بزور طاقت روک دیا گیا۔اور نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً ہی بعد انتخابات میں دھاندلی کا جھرلو محمد علی جناح کی زندگی میں ہی پھرنا شروع ہو گیا تھا جب دادو ضلع کے انتخابات میں جی ایم سید بمقابلہ قاضی محمد اکبر تھے۔پھر1977کے قبل از وقت انتخابات میں وزیرِاعظم کے خلاف جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی داخل کروانے سے پہلے سرکاری سرپرستی میں اغوا کر لیا گیا۔ ان انتخابات کے موقع پر حزب مخالف نے بھٹو حکومت پر زبردست دھاندلیوں کے الزامات لگائے۔ ملک میں بنیاد پرست، مذہبی اور دائیں بازو اور کچھ این ڈی پی اور تحریک استقلال جیسی’لبرل‘ جماعتوں کے اتحاد ’قومی اتحاد‘ کی تحریک نے گلی کوچوں میں تحریک چلائی جسے ریاستی اداروں نے کچلنے کی کوشش کی۔بہت سے مقامات پر قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے کارکن زبردست تشدد میں ملوث پائے گئے۔ جن میں کراچی، فیصل آباد، لاہور اور حیدرآباد شامل ہیں اور یہ شہر فوج کے حوالے کر کے ایک طرح کا منی مارشل لاء نافذ کردیا گیا جس نے جنرل ضیاء الحق کو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا بہانہ فراہم کیا جو بھٹو کی معزولی اور بعد میں ان کی پھانسی پر منتج ہوا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے ملک میں نوے دن کے اندر انتخابات کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کردینے کا وعدہ(جن وعدوں میں سے ایک اس نے کعبے میں کیا تھا) گیارہ سال تک محیط ہو گیا۔ سندھی زبان میں کہتے ہیں ’خدا ظالم کو لمبی رسی یا ڈھیل دے دیتا ہے‘۔ ضیاء الحق دو دفعہ انتخابات کروانے کا وعدہ کر کے مکر گئے۔پھر پیپلز پارٹی 1988کے انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی تو سہی لیکن غلام اسحاق خان جہیز میں لائی جنہوں نے بیس مہینوں کے اندر بینظیر حکومت کی چھٹی کرکے وفاق میں غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم اور سندھ میں جام صادق علی کو نگران وزیرِاعلی نامزد کیا۔یہ تو اب اس وقت کے نگران وزیرِاعظم غلام مصطفی جتوئی خود اعتراف کرتے ہیں کہ 1990کے انتخابات میں دھاندلیاں کی گئی تھیں۔ جام صادق علی نے تواس وقت کے صدر سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو بینظیر بھٹو کو لاڑکانہ سے بھی ہروا سکتے ہیں۔1997میں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو واقعی کتنا بھاری مینڈیٹ ملا تھا۔ وہ بھاری پن تو بارہ اکتوبر 1999کو ہی ہوا ہو گیا جب اس شام پاکستان کے افق سے تخت رائیونڈ کا سورج غروب ہوا اور اس کے بعد اب تک جو کچھ ہوا وہ ایک جیتی جاگتی تاریخ ہے ۔ پھر اس کے بعد آنے والے انتخابات 2008، 2013، 2018 میں دھاندلیوں کا خوب شور مچا۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف 14 اپریل 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں 126 دن کا تاریخی دھرنا دیا۔ پھر بھی حکمران مسلم لیگ نون کی حکومت نے دھاندلی کا راستہ روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی۔جبکہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے علاوہ سبھی جماعتوں نے شور مچایا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ الغرض پاکستانی اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور انتخابات اگر منصفانہ اور آزادانہ نہ ہوئے اور سب سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول نہ کیاتو انتخابات کی مشق پر خرچ ہونے والے ملک کے 50ارب روپے ڈوب جائیں گے اور ہم ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔