معیشت اور سیاست کے معاملات اور مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ الجھتے جارہے ہیں ۔ڈالر کے کم ہوتے ذخائر،بند ہوتی صنعتیں، بڑھتی ہوئی بے روزگاری،بے قابو ہوتی مہنگائی، سیلاب میں ڈوبی زراعت اور اس پر مستزاد I. M.Fکی تمام تر منت و سماجت کے بعد خا لی کشکول ۔ تیرہ جماعتی اتحاد پرمشتمل وفاقی حکومت اپنے تمام تر تجربات اور فہم و دانائی کے دعووں کے باوجود ریاست کو معاشی اور سیاسی بھنور سے نکالنے میں اب تک ناکام رہی ہے ۔ اہلیت کے فقدان کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات اور اخلاص عمل کی کمی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اس حکومت کی ابتدا سے ہی ساری توجہ ان امور پر رہی ہے کہ کس طرح اپنے مقدمات سے گلو خلاصی حاصل کی جائے اور کیسے تحریک انصاف اور عمران خاں کی مقبولیت کو کم کیا جائے اور تحلیل شدہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات کو کیسے اور کب تک ٹالا جائے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ قومی اسمبلی جس کی مدت ستمبر میں ختم ہو رہی ہے اس میں کس طرح توسیع کرتے ہوئے وفاق میں قائم حکومت کو تسلسل دیا جاسکے۔ انتخابات سے گریز کے لئے ان کی ساری کوششیں سیاسی اور معاشی مشکلات میں اضافہ کا ہی باعث بن رہی ہیں۔ ریاست کو بچانے اور اس کے مستقبل کا تحفظ آئین اور قانون کے اتباع میں ہے نہ کہ اس سے انحراف میں یا اس میں غیر ضروری طور پر ڈھونڈی جا نے والی موشگافیوں میں۔ اس بات کو سب ہی مانتے ہیں کہ معاشی بہتری کے لئے سیاسی استحکام ہونا بہت ضروری ہے مگر سیاسی استحکام کے لئے جس تدبر ،تحمل اور دانائی کی ضرورت ہے اس کے لئے کوئی بھی آمادہ نہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف ہو یا حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں سب کے اپنے اپنے سیاسی مفادات اور اہداف ہیں اور سچائی تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ریاست کی مشکلات ،معاملات اور مسائل کو حل کرنے کی نہ تو استعداد رکھتی ہے اور نہ ہی اخلاص۔پاکستان تحریک انصاف جو اس وقت تمام تر جائزوں اور انتخابی نتائج کی بنیاد پر ایک مقبول سیاسی جماعت ہے مگر اس کی اب تک اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملی ،طرز عمل اور اس کے قائد جناب عمران خاں کے بیانات اور پھر تبدیلی بیانات ( المعروف یو ٹرن ) سے پاکستا ن کی سیاسی الجھنوں میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی ہر گز نہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں عوامی حمایت اور بھرپور شخصی پذیرائی حاصل ہے، وہ اپنے تمام سیاسی اقدامات کے نتیجہ خیز ہو نے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی تائید کے منتظر و بے چین ہیں۔ جس میں وہ بوجوہ اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ وفاق میں اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے ان کے تمام سیاسی اقدامات انہیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے ۔قومی اسمبلی سے استعفی کا معاملہ ہو یا دوصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ۔ملک کے طول و عرض میں کئے جانے والے جلسے ہوں یا جلوس،دھرنے ہوں یا لانگ مارچ کسی بھی طرح وہ کمزور وفاقی حکومت سے اپنے مطالبات نہیں منواسکے۔جس سے ان کے رویوں میں یاسیت اور جھنجھلاہٹ نمایاں ہو چکی ہے جو کسی بھی طرح ایک قومی سیاسی جماعت کے قائد کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ( جسے وہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ذات تک محدود سمجھتے ہیں )کی طرف اٹھتی ہوئی نظریں جب ناکام لوٹتی ہیں تو ان کے یاسیت زدہ اقدامات نہ صرف ان کی سیاست بلکہ ریاست کی مخدوش معاشی اور سیاسی صورت حال کے لئے بھی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔I. M. F سے ہونے والے موجودہ حکومت کے مذاکرات میں جو مشکلات رہی ہیں،اس میں حکومت کی نااہلی اور ناقص حکمت عملی کے ساتھ منتشر اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کا بھی بڑا دخل ہے اور اس سیاسی بگاڑ میں عمران خاں کی غلط سیاسی فیصلوں کا بھی بڑا حصہ رہا ہے۔گزشتہ اپریل میں تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت کے خاتمہ کے بعد مثالی صورت تو یہ ہونا چاہیئے تھی کہ عمران خاں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی نشستوں پر رہتے ہوئے قومی سیاست میں اپنا موثئر کردار ادا کرتے ۔ انکی سیاسی جماعت پنجاب،خیبر پختون خوا ،کشمیر اور گلگت و بلتستان میں اقتدار میں رہتی ۔اس حیثیت میں وہ وفاق میں اتحادی حکومت کودبائو میں بھی رکھ سکتے تھے اور آئندہ انتخابات جو اس سال اکتوبر میں ہونا ہی تھے اس کے انعقاد کے لئے نگراں حکومتوں سمیت دیگر ضروری امور میں اپنا حصہ بہتر طور پر ڈال سکتے تھے ۔ان کی سیاسی توانائیاں یوں سڑکوں اور عدالتوں میں ضائع ہونے سے بچ رہتیں۔ موجودہ اتحادی حکومت کی سب سے بڑی مشکل ہی یہ رہی کہ اس نے ( کسی بھی طرح ) وفاق میں حکومت تو حاصل کرلی مگر اسے جوسیاسی اور اخلاقی حمایت اور توانائی کی ضرورت تھی ،اس سے وہ محروم رہی۔ چنانچہ اس کی ساری توجہ اپنے سیاسی اور عدالتی معاملات کے سدھار پر رہی ۔ریاست کے مشکل معاملات عزت مآب جناب اسحاق ڈار نے اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اپنی منصبی ذمہ داریوں پر اطمنان کی مہر ثبت کرلی۔بے شک اللہ قادر مطلق ہے مگر اس نے دنیا کے معاملات اپنے بندوں کے سپرد کر رکھے ہیں یہاں عمل کی جو آزادی ، شعور اور فیصلہ سازی کی قوت انسانوں کو دی گئی ہے اس کے نتائج جزا اور سزا کی صورت اس دنیا کی زندگی میںبھی اور اس کے بعد ابدی حیات میں بھی انسانوں کو ہی ملنے ہیں۔حکومتی مناصب اور ذمہ داریاں دیانت داری کے ساتھ کارکردگی کی متقاضی ہیں، جس سے ہمارے موجودہ تمام ہی سیاسی قائدین پورا کرنے میں عاجز رہے ہیں ۔ نتائج اب ہمارے سامنے ہیں۔!!