ا س سال اگست کی بارہ تاریخ کو موجودہ اسمبلیوں کی مدت تمام ہورہی ہے۔ اگر اسمبلیاں اپنی مدت تک قائم رہتی ہیں تو پھر ساٹھ روز میں انتخابات کے ذریعہ نئی اسمبلیاں تشکیل پائینگی اور اگر اس سے پہلے وزیر اعظم اسمبلیاں برخواست کرتے ہیں تو پھر انتخابات نوے روز میں کرانا آئین کا تقاضہ ہے۔کسی بھی جمہوری سیاسی نظام کے تسلسل کے لئے یہ صورتحال آئین میں بالکل واضح طور پر موجود ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنا ناگزیر سمجھا جاتا ہے مگر شاید پاکستان میں ایسا کرنا ضروری نہیں۔ یہاں جمہوریت اور قومی مفاد کے نام پر ہر طرح کے غیرجمہوری اور غیر آئینی اقدام کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ اختیار کرنے کی ریت بڑی پرانی اور مستحکم ہے۔ اب جب کہ حکومت اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے جارہی ہے تو دانستہ حکومت اور دیگر مختلف حلقوں کی جانب سے ایسی باتیں کی جارہی ہیں جس سے آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں ۔دو اگست کے اخبارات میں وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف کا جو بیان شائع ہوا ہے اس کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ مردم شماری ہوئی ہے تو اسی پر انتخابات ہونے چاہئیں ۔ مردم شماری کے نتائج مکمل ہونے پر مشترکہ مفادات کونسل میں جائیں گے۔12 اگست کو حکومت کی مدت مکمل ہورہی ہے۔ نئی مردم شماری کے مطابق ہی انتخابات میں جانا ہے ۔گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ اتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس روز کے اخبار میں ہی جناب احسن اقبال کا بھی بیان شائع ہوا ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرا موقف یہی رہا ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کروانے کے لئے 90 دن سے آگے جانا پڑے گا۔الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے نتائج کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوتی ہیں جس کے لئے صوبوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کے لئے آئین میں ترمیم درکار ہوگی۔ 90 دن میں انتخابات کروانے ہیں تو وہ پرانی مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے۔نئی مردم شمار ی کے مطابق از سر نو حلقہ بندیوں پر متحدہ قومی موومنٹ کا بھی اصرار ہے۔اس کے لئے اگر الیکشن میں کچھ تاخیر ہو بھی جائے تو وہ گوارا ہے۔ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب راجہ ریاض بھی اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں کہ انتخابات تین ماہ میں ہونگے یا پھردو سال بعد ہوں گے۔ آئین سے انحراف کی یہ مثال پہلے ہی پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات کے ضمن قائم کی جاچکی ہے۔ جو جنوری 2023 میںتحلیل ہوئی تھیں اور ان کے انتخابات آئین کے مطابق اپریل میں ہو جانے چاہیئے تھے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود ، اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ اس واضح انحراف پر اب اعلی عدلیہ نے بھی خاموشی اختیار کر لی ہے۔حکمران اتحاد کی بعض سیاسی جماعتوں کا مفاد بھی اسی میں نظر آرہا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال میں اگر قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی کچھ ما ہ کے لئے ملتوی ہو جا تے ہیں تو یہ ’’ عین قومی مفاد‘‘ میں ہوگا۔پاکستان کی سیاست میں یہ بھی ایک عجیب مخمصہ رہا ہے کہ حکمرانوں کا قومی مفاد کچھ اور ہوتا ہے اور عوام کا کچھ اور۔ حکمرانوں کے پیش نظر محض ان کے سیاسی مفادات ہوتے ہیں اور آئین کے تقاضے کچھ اور مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پچھتر سال کی سیاسی تاریخ میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور اب موجودہ حکومت کا طرز عمل بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ اس کے بعض اقدامات منظر اور پس منظر کے تفاوت کو نماٰیاں کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے لئے نگراں حکومتوں کے قیام عمل میں آتا ہے جن کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کے عمل کو مکمل غیر جانب داری کے ساتھ منصفانہ اور شفاف بنانا ہے۔ اس کے لئے انہیں ضروری اقدامات کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ موجودہ اتحادی حکومت جس کی سیاسی بنیاد انتہائی کمزور ،کارکردگی ناقص اور اہلیت سطحی ثابت ہوئی ہے عوامی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کا باعث بنی ہے۔ اپنے کسی بھی طرز عمل سے یہ نہ تو جمہوری سیاست کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی نظر آئی ہے اور نہ اس کی پالیسیوں میں عوام دوستی کا کوئی پہلو نمایاں ہوسکا ہے۔یہ درست ہے کہ اس حکومت کو کافی ناسازگار حالات کا سامنا رہا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کا بار انہوں نے خود اپنے ذمہ لیا تھا ۔ انہیں صورتحال کا علم ہونا چاہیئے تھا اور اس کے لئے پوری تیاری کے ساتھ حکومت کی ذمہ داری لینا چاہیئے تھی ۔سو وہ سب اس میں کامیاب رہے تاہم اب اس موقع پر انتخابات سے فرار کی گنجائش پیدا کرنا ، کوئی جواز تراشنا اور اسے کسی مناسب موقع تک ٹالے رکھنا ریاست اور اس کے سیاسی استحکام کے لئے مناسب نہیں ہے۔بہتر اور واضح راستہ وہی ہے جو آئین نے تجویز کیا ہے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں وفاقی حکومت کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی رہی تھی کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہونے سے ملک میں سیاسی استحکام ہوگا سو اب اس موقع پر پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہونے میں حیلہ سازی یا شکوک و شبہات کیوں ؟ اس ضمن میں کی جانے والی تمام قانون سازی سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور بنیاد کی حامل ہے ۔ انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام اقدامات سے موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کی سیاسی ساکھ مزیدید خراب ہوگی ۔اس سال نومبر میں انتخابات ہو جانے دیں یہی سیاسی طور پر آگے بڑھنے کا واضح راستہ ہے ۔ پہلے ہی ریاست کی مشکلات کچھ کم نہیں ہیں انتخابات سے گریز اور اس کے التوا سے ان میں اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔