جب میڈیا کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ یکسوئی کا شکار ہوگیا ہے تب وہ بھی اپنا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میڈیا حالات کا قیدی ہے۔ وہ منظر کو تبدیل تو نہیں کرسکتا مگر زاویے میں تھوڑی بہت تبدیلی اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس لیے کبھی کبھار حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے میڈیا نجومیوں کو بھی بلاتا ہے اور معاشرے کے ان عناصر کی رائے بھی سنتا اور سناتا ہے جن کو عام طور پر قبول نہیں کیا جاتا مگر پھر بھی مجبور لوگ ان کو اپنا مسئلہ بتاتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ تلخ حالات میں کب تبدیلی آئے گی؟ مرزا غالب توہم پرست نہیں تھے مگر کبھی کبھی جی کو بہلانے کے لیے ستاروں اور سیاروں کا تذکرہ کرتے تھے۔ ان کا مشہور شعر ہے: ؎ دیکھیے پاتے ہیں عشق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے مگر اس سوال کے حوالے سے کسی پنڈت؛ پروہت اور نجومی نے نہیں کہا کہ یہ ایک اچھا سال ہے۔ کیوں کہ نجومیوں کی نظر حالات پر رہتی ہے۔ رواں سال سے پر گذشتہ برس کے آخری ما ہ کا منفی اثر کورونا کے حوالے سے نوٹ کیا گیا اس لیے اس بار نجومیوں نے رواں برس کے بارے میں کسی خوش خبری کا اظہار نہیں کیا۔ اس وقت تو کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کے حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ نہ صرف سیاستدان بلکہ سائنسدان تھوڑے وہمی ہوگئے ہیں اور وہ بھی غیب کی دنیا سے کسی مدد کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ کورونا سے قبل جوتشیوں اور نجومیوں کی باتیں سننا سائنسدان اپنی توہین سمجھتے تھے مگر اب جب نجومی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آسمان پر بلا کا سایہ ہے اور یہ منفی ستارہ جب بھی نمودار ہوتا ہے تب دھرتی پر اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ پھر وہ زلزلوں اور طوفانوں کی صورت میں ہو یا جنگوں اور وباؤں کی صورت میں ہو۔ اس بار دنیا کو کووڈ19 کا سامنا ہے۔ دنیا میں دو لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ اموات کورونا کے وجہ سے ہوئی ہیں۔ اب یہ قاتل مہمان اس دھرتی پر کب تک ٹہرے گا؟ اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔ اس سلسلے میں سیاستدان؛ حکمران؛ سائنسدان اور نجومی بھی خاموش ہیں۔ امید انسان کا دامن نہیں چھوڑتی ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ Hope floats یعنی امید تیرتی رہتی ہے۔ امید کبھی نہیں ڈوبتی۔ انسان کی فطرت میں موجود اس عنصر کی نشاندہی کرتے ہوئے مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا: رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبراویں کیا!! کورونا کے حوالے سے اب تک کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ کورونا کے کیسز دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور کورونا کا مقابلہ کرنے کی طاقت اب تک کسی ملک میں نہیں ہے۔ چین کو دعوی ہے کہ اس نے اپنے مک کو کورونا سے قریب قریب محفوظ کرلیا ہے مگر دنیا کورونا کے سلسلے میں چین کی کوئی بات ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ یہ دنیا جو بہت پریشان ہے۔ یہ دنیا جو کورونا کی وجہ سے نہ صرف معاشی تباہی اور معاشرتی مسائل کا گڑھ بن گئی ہے مگر اس وبا کے دامن دو لاکھ پچیس ہزار اموات کا داغ لگا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کورونا نے نئے قاتل کا روپ دھار لیا ہے مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ دنیا میں ہر شخص کورونا کی وجہ سے لقمہ اجل ہو رہا ہے۔ جس طرح فیض احمد فیض نے فرمایا ہے کہ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ اسی طرح دنیا میں کورونا کے علاوہ اور بھی قاتل ہیں۔وہ پرانے قاتل جن کو اب تک صفحہ ہستی سے مٹانے میں میڈیکل سائنس کامیاب نہیں ہو پائی۔ ان قاتل وباؤں میں کینسر آج بھی بڑی قاتل بیماری ہے۔ کینسر کی وجہ سے گذشتہ دنوں بھارتی فلم انڈسٹری کے دو بڑے اداکار اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایک دن بالی ووڈ کا باصلاحیت اداکار عرفان خان کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا اور دوسرے دن ایک عرصے سے فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے کپور فیملی کے فرد رشی کپور اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے چاہنے والوں میں درد کی ایک لہر ابھری ہوئی ہے۔پاکستان اور بھارت کے سوشل میڈیا پر ان اداکاروں کے حوالے سے ایک حلقے میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وہ حلقہ ان عام لوگوں کا ہے جو بچپن سے فلمیں دیکھتے ہیں اور فلمی اداکاروں سے محبت میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ وہ فلمی اداکار جو بار بار مختلف کرداروں کا لباس پہن کر ان کے سامنے آتے ہیں ۔ وہ اداکار جو بہت ساری فلموں کے کلائمیکس میں مر جاتے ہیں مگر نئی فلموں میں نئے کرداروں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ان اداکاروں کے بارے میں عام لوگ جذباتی ہوتے ہیں۔وہ اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔عام لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے سیاستدان اور حکمران ملک کے مشہور اداکاروں کی موت پر افسوس کا اظہار کرنے والے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔ بھارت میں موت کی آغوش میں سمانے والے اداکاروں کے بارے میں صرف بالی ووڈ کے اداکاروں نے اظہار افسوس نہیں کیا بلکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے بھی دونوں اداکاروں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ دونوں کی ٹوئیٹس میں عرفان خان اور رشی کپور کی موت کو بھارت کی فلم انڈسٹری کیلئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ حالانکہ بالی ووڈ کے مشہور نغموں میں بھی یہ صدائیں سنائی جاتی ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کیلئے رہنے نہیں آیا۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اردو ادب کے بڑے نام ساحر لدھیانوی کا تعلق تخلیقی ادب کیساتھ ساتھ بھارت کی فلم انڈسٹری سے بھی رہا۔ انہوں نے بہت اچھے گیت لکھے۔ ساحر لدھیانوی کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ کیوں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے مگر یہ دنیا گیتوں سے گونج رہی ہے۔ایسے گیت جو ہم سنتے ہیں۔ پسند کرتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں۔ پھر کسی وجہ سے وہ گیت ہم کو یاد آجاتے ہیں۔عام لوگ فلموں میں اپنی زندگی کی محرومیاں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام لوگ ان اداکاروں اور اداکاراؤں کے حوالے سے بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ عام لوگ اس سیاست کو نہیں سمجھتے جو فلموں کے حوالے سے ان کھیلی جاتی ہے۔ بھارت کی فلمی میڈیا بہت بڑی انڈسٹری کا نام ہے۔ اس انڈسٹری میں آج بھی ان مسلمان اداکاروں کا راج ہے جن کے لیے بھارت کی بڑی جمہوریت کا دامن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مسلمان اداکار جو آج بھی بالی ووڈ کے مقبول چہرے ہیں؛ ان مقبول چہروں میں ایک مقبول چہرہ عرفان خان کا بھی تھا۔ انہوں نے رشی کپور سے کم فلموں میں کام کیا۔ ان کا تعلق کسی فلمی گھرانے سے نہیں تھا۔ مگر ان کے موت کی خبر نہ صر ف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ کے فضاؤں میں بھی اداس کر گئی ہے۔ یہ فلمی ستارے آسمان کے ستاروں کی طرح بہت بڑی زندگی نہیں پاتے۔ وہ عام لوگوں سے زیادہ مقبول ہوتے ہیں مگر ان کی زندگی بھی عام لوگوں جتنی ہوتی ہے۔ وہ فلمی ستارے جب موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جب آسمان اندھیرا نہیں ہوجاتا۔ ان کی کمی بھی چند دنوں کے لیے محسوس کی جاتی ہے۔ پھر کبھی میڈیا کو کسی بھی حوالے سے ان کی یاد آتی ہے تو چلا دیتا ہے یہ گیت جس میں زندگی کی بے ثباتی کا خوبصورت اظہار کیا گیا ہے۔