وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( I.M.F.) نے انتہائی ٹف ٹائم دیا ہوا ہے ۔ اس ادارے نے ناک سے لکیریں نکلوالی ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایک دھیلے ( شہباز شریف کی پسندیدہ مالیاتی اکائی ) کی سبسڈی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری ساری کتابیں وہ دیکھ رہے ہیں انہیں ہم ( حکمرانوں ) پر اعتماد نہیں ہے ۔ یہ ہے وہ بے چارگی اور بے بسی جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے بیانات سے ظاہر ہو رہی ہے۔ایک ایٹمی طاقت کی حامل ریاست کے لئے اور اس کی بائیس کروڑ آبادی کے لئے یہ صورت حال باعث تشویش ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی ہے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے منصب سنبھالتے ہوئے جس طرح کے بیانات دئے تھے اور قوم کو یہ نوید دی تھی کہ انہیںI.M.F.سے بات کرنا آتی ہے اوروہ جانتے ہیں کہ اس ادارے کو کیسے ڈیل کرنا ہے مگر اب I.M.F.ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈار صاحب کو تو نہیں البتہ I.M.F کو پتہ ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ کو کیسے ڈیل کرنا ہے ۔ ڈالر کو قابو کرتے کرتے ڈار صاحب خود بے قابو ہوچکے ہیں۔کسی فلمی ولن کے انداز میں ان کا دعوی تھا کہ وہ ڈالر کو دو سو سے نیچے لاکر اسے اس کی اوقات میں لانا جانتے ہیں ۔ مگر وائے افسوس ڈار صاحب ایسا کچھ بھی نہ کرسکے۔ اطلاعات کے مطابق I.M.F کے مطالبات ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت سے سخت تر ہو رہے ہیں۔درآمدی پالیسی کیا ہو، جون تک زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہونے چاہئیں ، ترقیاتی اخراجات میں کس قدر کٹوتی مطلوب ہے اورقومی وسائل پر مستقل بوجھ رہنے والے اداروں ( پاکستان اسٹیل، پی۔ آئی ۔اے،پاکستا ن ریلوے) کی نجکاری ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی واضح ہدایات ( یا حکمنامہ ) کی موجودگی نہ صرف ریاستی معاشی آزادی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ حکمرانوں نے سیاسی مفادات اور مصلحتوں کے پیش نظر درست اور دور رس نتائج کے حامل معاشی فیصلوں سے اب تک اجتناب کیا ہے۔ جس کا خمیازہ اب پوری پاکستان کی ریاست اور اس کے شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ معاشی پالیسیوں کے عدم تسلسل ، سیاسی عدم استحکام اور غیرمتوازن تجارتی ترجیحات وہ بنیادی عوامل ہیں جن کے باعث قومی معیشت آج اس نہج پر ہے ۔ پاکستان کی موجودہ معاشی تباہی کسی ایک حکومت کی نااہلی یا ناکامی نہیں بلکہ تمام سابقہ حکومتیں اوران کی سیاسی مفادات پر مبنی معاشی پالیسیاں اس کی ذمہ دار ہیں بد انتظامی اور بدعنوانیاں اس پر مستزاد ہیں۔ بیش بہاء قدرتی وسائل اور دستیا ب انسانی وسائل کی موجودگی کے باوجود اقوام عالم میں پاکستان کی مالیاتی ساکھ منفی درجوں پر جا پہنچی ہے ۔ ریاست پر قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ ہے، قرض کا حصول اسی صورت مفید اور معاون رہتا ہے جب اسے وسائل کی افزائش اور ترقیاتی اہداف کے لئے کارآمد بنایا جائے اور قرض کی ادائیگی کو قومی وسائل سے ممکن بنایا جائے اگر قرضوں کی ادائیگی بھی قرضوں کے ذریعہ ہو اور پھر اسے عادت بھی بنالیا جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو اب پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کی داخلی سیاسی انتشار کی کیفیت میں محتاط ہو گئے ہیں، سب کا یہی مطالبہ ہے کہ داخلی سیاسی استحکام کو ممکن بناتے ہوئے پوری سنجیدگی کے ساتھ درست معاشی فیصلے کئے جائیں اور ان پر پوری دیانت داری سے عمل بھی ہو ۔ مگر موجودہ حکومت کے اب تک ا ٹھائے جانے والے اقدامات اس سلسلے میں نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ان کا نفاذ بھی نیم دلانہ ثابت ہوا ہے ۔توانائی بچائو مہم کے ضمن میں جن اقدامات کا بڑے زور شور سے اعلان ہوا،وہ بس اعلان ہی رہے اور اب تو حکومت بھی ان اعلانات کو بھول چکی ہے ۔ اخلاص کا یہ فقدان ہی عوامی اور انتظامی سطح پر حکمرانوں کے اعتبار کو متاثر کرتا ہے ۔ ا عتماد و اعتبار کے فقدان کے باعث ہی I.M.F. موجودہ حکومت کے ساتھ معاملات کرنے میں حددرجہ محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔اس مالیاتی ادارے سے گزشتہ پروگرام میں جن اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ان پر عمل نہیں کیا گیا ۔ جس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی موجودہ صورت حال ساکھ کے اسی بحران کا نتیجہ ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ سخت ترین شرائط کے بعدI.M.F.سے قرض کی موجودہ قسط حاصل ہو جائیگی اور کچھ وقت کے لئے معیشت کی ڈوبتی نبض بھی بحال ہو جائیگی۔اراکین حکومت اسے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرینگے مگر حقیقت میںیہ کامیابی نہیں ہے۔پھر یہ کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہ پائیگا؟ریاست کے مستقبل کا تحفظ مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ہوگا جب معیشت کو قرضوں کے بجائے قومی وسائل کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔ترجیحات کا درست تعین ہو۔غیر ضروری اخراجات میں ہنگامی بنیادوں پر کمی کرتے ہوئے آمدنی اور اخراجات میں موجود خلیج کو کم سے کم کیا جائے۔غیراہم درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔زراعت جو پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے، اس کی بہتری اور ترقی کے لئے اسے ہر سطح پر اہمیت دی جائے۔اور سب سے بڑھ کر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جاری منصوبوں کو سیاسی تبدیلیوں کے باوجود تبدیل نہ کیا جائے۔۔ قومی معیشت کو دفاعی معاملات کی طرح اقتدار کی سیاسی کشمکش سے الگ رکھنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ حکمرانوں کی نا اہلی ،عاقبت نا اندیشی اور مجرمانہ غفلت سے پیدا ہونے والی اس معاشی تباہی سے نکلنے کی یہی اک صورت ہے ۔