خدا کسی سے بیٹے کی قربانی کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟ اگر خدااورانسان کے تعلق کوسمجھاجائے، تو اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے اور اس میں کوئی عقلی قباحت نظر نہیں آتی: غریب و سادہ ورنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل! لیکن جو لوگ غیروں کے حملوں کے خلاف مدافعانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں، وہ حسنِ نیت کے باوجود عذر خواہی میں دینی تصورات کی ایسی تاویلات شروع کرنے لگتے ہیں جو دین کی مسلمہ روایت کے لئے اجنبی ہوتی ہیں۔ مثلاً مولانا حمید الدین فراہی نے یہ تاویل اختیار کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بیٹے کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے خواب کا مطلب یہ تھا آپ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے گھر کی خدمت کے لیے خاص کردیں۔ اس تاویل کی ضرورت کیوں پڑی ؟ اس کا جواب علامہ شبلی نعمانی کے ہاں ملتا ہے جنھوں نے سیرت النبی ﷺ کی پہلی جلد میں فراہی کی تحقیق پر انحصار کرتے ہوئے جب اس واقعے پر لکھا تو ابتدا میں ہی یہ ذکر کیے بغیر نہ رہ سکے کہ اس تحقیق سے مقصود کسی کے اعتراض کا جواب دینا ہے: "حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا اس سے اصل مقصود کیا تھا ؟ قدیم زمانے میں بت پرست قومیں اپنے معبودوں پر اپنی اولاد کو بھینٹ چڑھادیا کرتی تھیں۔ یہ رسم ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ سے قبل موجود تھی۔ مخالفینِ اسلام کا خیال ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی بھی اسی طرح کا حکم تھا ، لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ " تقریباً سو سال قبل اٹھائے گئے اس سوال کے جواب میں مکتبِ فراہی کے بعض منتسبین نے آج بھی یہی روش اختیار کیے رکھی ہے۔ مثلاً جناب جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید جناب ڈاکٹر شہزاد سلیم کا کہنا ہے کہ خدا نے بیٹے کی قربانی نہیں مانگی ، لیکن "ابراہیم علیہ السلام نے ایسا سمجھا کہ خدا نے ان سے یہ مطالبہ کیا ہے "، اور یہ کہ انبیاء کے خواب خدا کی جانب سے ان کی رہ نمائی کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن "ان کی لفظی تعبیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ دیکھنا چاہیے کہ علامتی زبان میں کہا کیا گیا ہے۔"وہ مزید فرماتے ہیں کہ خواب اگرچہ علامتی زبان میں ہوتے ہیں لیکن "جو شخص ان پر غور کرے تو ان کا صحیح مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے۔"نیز یہ کہ "قدیم صحائف کا علم رکھنے والے کسی بھی شخص "کے لئے یہ بات واضح ہے کہ خواب میں"انسان کی قربانی " کی تعبیر یہ ہے کہ "کسی شخص کو خدا کی خدمت کے لئے وقف کیا جائے۔ " تو کیا ابراہیم علیہ السلام()نعوذ باللہ) بچے کی قربانی اس لیے دینے لگے کہ آپ کو قدیم صحائف کا علم نہیں تھا ؟ شہزاد سلیم صاحب لکھتے ہیں کہ ایسا "انھوں نے اطاعت شعاری کے جذبے سے کیا۔" اس سوال کو فی الحال نظر انداز کیجیے کہ اطاعت شعاری کے جذبے سے ہی سہی، کیا پیغمبر کسی ایسے فرد کی جان لے سکتے ہیں جس کی جان لینے سے خدا نے روک رکھا ہو؟ اور اگلے سوال پر آئیے کہ خدا نے پھر یہ کیوں کہا کہ "تو نے خواب سچا کردکھایا؟"وہ فرماتے ہیں: "خدا نے ان سے کہا کہ تم نے خواب کو حقیقت بنادیا، جو ظاہر ہے کہ مطلوب نہیں تھا۔"اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیوں "ظاہر ہے" کہ یہ "مطلوب نہیں تھا"، تو اس کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ خدا کبھی "عقل و فطرت"کے خلاف کام کا حکم نہیں دیتا۔ لیکن اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کیسے ایک عقل و فطرت کے خلاف کام کے لیے تیار ہوگئے تھے ؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ جب ان کیلیے خدا کا حکم آگیا (کیونکہ پیغمبر کا خواب بھی "وحی" ہوتا ہے جس کا مفہوم پیغمبر کیلیے صبح کی طرح روشن ہوتا ہے)، تو پھر "عقل و فطرت" کی "دلیل"کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی؟ اس تاویل کے پیچھے مفروضہ یہ بھی ہے کہ اس خواب کے بعد ہی ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی خدمت کے لیے "نذر" کیا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا اسماعیل علیہ السلام کو بچپن میں ہی مکہ مکرمہ میں آباد کرایا گیا تھا؟ تورات کی دو مختلف روایات ہیں۔ ایک جانب یہ بتایا گیا ہے کہ جب اسحاق علیہ السلام کا دودھ چھڑایاگیا تو اس موقع پر اسماعیل علیہ السلام ان کے ساتھ "ٹھٹھے " کررہے تھے جس کا سیدہ سارہ نے بہت برا منایا اور انھوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ سیدہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے کو وہاں سے الگ کہیں آباد کرائیں۔ یہ روایت خالص یہودی تعصب پر مبنی ہے۔ تاہم اگر اسے تسلیم کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر کم از کم سولہ سال تھی (کیوں کہ تورات ہی کی روایت کے مطابق وہ اسحاق علیہ السلام سے چودہ سال بڑے تھے اور اگر اسحاق علیہ السلام کا دو سال کی عمر میں ہی دودھ چھڑایا گیا تو اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر سولہ سال بنتی ہے )۔ تورات کی دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ حاجرہ نے اسماعیل علیہ السلام کو گود میں اٹھایا ہوا تھا (گویا وہ بہت کم سن تھے) اور پھر فرشتے کی آمد اور چشمے کے پھوٹ پڑنے کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کا واقعہ اس کے بعد ہوا اور اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ خود مولانا فراہی کی تحقیق کے مطابق ذبح کا واقعہ مروہ میں ہوا (جسے تورات کی موجودہ روایات میں مریاہ کہا گیا ہے)۔ "نذر" کردینے کے مفہوم پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ مکتبِ فراہی کے مطابق نذر کیے جانے والے فرد کو تمام ذمہ داریوں سے آزاد کیا جاتا اور وہ تجرد کی زندگی ( life celibate) گزارتا۔ ظاہر ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ مزید یہ کہ نذر انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اگر خدا نے کسی کام کا حکم دیا، تو وہ کام اس حکم کی وجہ سے واجب ہوا ، نہ کہ اپنی جانب سے نذر کرنے کی وجہ سے۔ تو اگر خدا نے خواب کے ذریعے حکم دیا کہ بچے کو خدا کے گھر کیلیے خاص کردیں، تو یہ نذر نہیں ہے اور اس کیلیے تورات میں نذر کے احکام سے استدلال غلط ہے۔ یہود میں پہلوٹھے بچے کے متعلق خصوصی احکام یقیناً پائے جاتے ہیں، لیکن قرآن میں سرے سے ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔پھر بھی ان احکام کوتورات کا حصہ مانا جائے، تو یہ کیوں ماننا ضروری ہو کہ تورات کے نزول سے صدیوں پہلے اسماعیل علیہ السلام پر ان کا اطلاق ہوا تھا؟ مکتبِ فراہی کی اس تاویل سے غیروں کے اعتراض کا تو کیا جواب ملتا، دین میں قربانی کا تصور ہی مسخ ہو کر رہ گیا ہے: ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے! ٭٭٭٭٭