یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانی نوجوان یونان کے جنوبی ساحل پر آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجائے پردیسی پانیوں میں بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ڈوب گئے ۔ان کے مرنے اور لاپتہ ہونے کی خبرسے ان کے خاندانوں پر قیامت گزر گئی ہے۔اس سانحے کے بعدبہت سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا مافیا اتنا طاقتور کیسے ہے کہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔کیا اس مافیا کے تعلقات اہل ختیار و اہل اقتدار تک جاتے ہیں کہ جعلی ایجنٹوں کے ذریعے نوجوانوں کو یورپ کے سفر پر بھیجنے کے کاروبار میں یہ لوگ کروڑوں کماتے ہیں لیکن جب اس سفر کے دوران ان نوجوانوں پر کوئی مصیبت گزرتی ہے تو یہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتے۔کہا جاتا ہے کہ ان نوجوانوں کو سفر پر بھیجنے سے پہلے ان کے والدین کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ نوجوان غیر قانونی طور ملک سے باہر جا رہے ہیں، اس دوران اگر گولی لگنے، ڈوبنے یا کسی بھی اور حادثے میں ان کی موت واقع ہوتی ہے تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بہت المناک سانحہ ہے۔ ڈوبنے والی کشتی کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کشتی میں ضرورت سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا گیا تھا۔ساڑھے سات سو مسافر مرد، عورتیں اور بچّے اس کشتی میں سوار تھے ۔ کہا جا رہا ہے کہ دوران سفر ہی مسافروں کے حالات اتنے برے تھے کہ سفر کے دوران چار افراد کی ہلاکت پانی نہ ملنے سے ہوئی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ غریب گھرانوں کے نوجوان قرض اٹھا کر پچیس پچیس لاکھ ایجنٹوں کو دیتے ہیں۔اور اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو اس خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ بدقسمت سفر کے راستے ہی میں موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔کیا چیز نوجوانوں کو اکسا رہی ہے کہ وہ وہ اس خطرناک راستے کا انتخاب کریں۔پاکستان کے عدم استحکام پر مبنی سیاسی حالات ، ناانصافی پر مبنی معاشی نظام اور مہنگائی کے ہاتھوں روز بروز کم ہوتی ہوئی قوت خرید نے عام آدمی کے لیے زندگی بہت مشکل کردی ہے۔غریب آدمی کے ساتھ بھی زندگی کی ساری ضرورتیں جڑی ہوئی ہیںلیکن ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اس کی جیب خالی ہے۔غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجنے والا مافیا ایسے ہی غریبوں کی مجبوریوں کا استحصال کرتا ہے۔ یورپ کے سہانے خواب دکھا کر ان لوگوں کی جمع پونجی بھی ان سے چھین لیتا ہے اور اس راستے میں بعض بدقسمت ۔والدین اپنے جوان بیٹے بھی کھو دیتے ہیں۔پچیس لاکھ بہت بڑی رقم ہے۔ اس سے کم رقم میں ایک چھوٹے کاروبار کا آغاز کیا جاسکتا یے۔ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دور میں کم پیسوں میں اپنی دکان اکثر نیٹ پر کھولی جاسکتی ہے۔ڈیجٹل ہنر سیکھ کر انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کرنے اور مختلف دوسرے ہنر میں اپنی قسمت آزمانے کیلئے چند ہزار کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ راستہ تھوڑا سا صبر آزما اور طویل ہو سکتا ہے لیکن اس میں ایسے نقصان کا خدشہ نہیں جو نقصان یونان کے راستے یورپ جانے والے ہمارے نوجوانوں نے اٹھایا۔اس وقت ان کے خاندان اپنے بیٹوں کے جسد خاکی واپس لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔غم سے نڈھال ایک ماں ٹی وی پر دہائی دے رہی تھی کہ اب ایجنٹ ان کے بیٹے کی لاش واپس کرنے کے لئے بھی پیسے مانگ رہے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں اچھی چیزیں بھی ہو رہی ہیں ہمارے ہاں ہر سال سینکڑوں ہزاروں نوجوان ڈیجیٹل سیکھ کر اس کے ذریعہ روزگار کما رہے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بدل رہے ہیں مگر یہ تصویرکا وہ رخ ہے جس کا چرچا سوشل میڈیا کی مختلف پوسٹوں میں ہوتا ہے لیکن مین سٹریم میڈیا ایسی امکانات سے بھری مثبت چیزوں کو وقت نہیں دیتا۔ہمارے اخبارات میں زیادہ کوریج منفی حالات کو ملتی ہے۔ پرائم ٹائم میں کبھی ایسے پروگرام نہیں ہوتے جس میں پاکستان کے نوجوانوں کو امکانات کی دنیا دکھائی جائے۔میرے نزدیک یہ فیکٹر انتہائی اہم ہیں کیونکہ جو کچھ الیکٹرانک میڈیا ہمیں دکھاتا ہے ہمارے بچے اور نوجوان اس کا بہت منفی اثر لیتے ہیں۔تمام ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم میں ہونے والے ٹاک شوز میں بیٹھ کر سیاست اور صرف سیاست زیر بحث رہتی ہے۔ اس سے پاکستان کی ایسی تصویر سامنے آتی جس سے نوجوانوں کے امیدوں پر پانی پڑتا ہے ان کو پاکستان میں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان 60 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل ہے۔ حکومت کے پاس نوجوانوں کے لئے کیا پروگرام ہے۔اگر مقتدر اشرافیہ نے اس صورت حال کی حساسیت کے پیش نظر نوجوانوں کے لیے پالیسیاں بنائی ہوتیں تو اس وقت ہمارے ملک کے یہ 298 نوجوان جعلی ایجنٹوں کے ہتھے نہ چڑھتے۔ایک لمحے کو سوچئے کہ اگر ایک ایسا نظام ہوتا جس میں کم پڑھے لکھے ،غریب نوجوانوں کو حکومت قرض حسنہ دیتی ، ان کو چھوٹے کاروبار کرنے کے طریقے سکھائے جاتے، یہ تمام ٹریننگ اور کاروبار کو لانچ کرنے تک کا عرصہ نوجوانوں کو حکومتی ادارے مکمل طور پر سپورٹ کرتے اور ریاست ایک ماں کی طرح اپنے کم وسیلہ جوانوں کا خیال کرکے ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے میں ان کی مدد کرتی تو کیا غریب گھروں کے یہ نوجوان پردیس کاٹنے کو گھروں سے نکلتے، شاید کبھی بھی نہیں۔اگر انہیں اپنے خواب یہاں پورا ہونے کے امکانات دکھائی دیتے تو کوئی بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کے موت کے اس سفر پر نہ جاتا۔ان نوجوانوں کی ہلاکت میں صرف انہیں غیر قانونی طور پر یورپ بھیجنے والے ایجنٹ ہی شریک نہیں بلکہ پاکستان کا نا انصافی پر مبنی معاشی نظام اور اس کی پالیسیاں بنانے والے اہل اختیار اور اہل اقتدار بھی اس ہولناک سانحے میں برابر کے شریک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں کون لائے گا؟پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوز ٹونٹی فور سیون جو مایوسی پھیلا رہے ہیں اسے کنڑول کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔یقین کریں کہ مسلسل پاکستان کے ڈیفالٹ کی خبریں اور پاکستان کے سیاسی تماشوں کی خبریں نوجوانوں کے کے اندر وہ مایوسی پیدا کر رہی ہیں جس سے بچنے کے لیے وہ پردیس کا رخ کرتے ہیں۔