جنوری 2018ء کی بات ہے ۔ اس وقت کی حکومت نے ایک تگڑے پیر صاحب کے دربار کو اوقاف کے تصرف میں لینے کا فیصلہ کیا تو پیرجی نے اپنے زیرِ اثر دو چار ایم پیزکی معیت میں حکومت کو دھمکی لگائی کہ وزیرِ قانون (رانا ثنا اللہ ) اپنے عہدے سے استعفیٰ دے، وگرنہ مَیں ایک ہفتے کے اندر اندر حکومت گرا کے ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ اعلان سنتے ہی پارٹی کے میٹھی لسی لہجے والے لیڈر پیر جی کے ڈیرے پر پہنچے۔ نہ صرف دربار بحالی کا اعلان کیا بلکہ بھیدیوں کے بقول دو کروڑ کا چڑھاوا’’رکھ دیا قدموں میں دل نذرانہ قبول کر لو…‘ والے عجز و انکسار کے ساتھ چڑھایا، تب کہیں جا کے پیر صاحب کا غصہ اُترا ۔ فروری 2024ء کے الیکشن میں اربوں روپے خرچ کر کے ، جس طرح کا گھناؤنا کھیل رچایا اور جیتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کا مینڈٹ چرایا گیا، اس سے ملکی معیشت کی گردن پہ سال ہا سال سے مسلط چند مفاد پرست عناصر تو یقیناً خوش ہو گئے لیکن بہتری کی امید لگائے بیٹھی پوری قوم کے سر پہ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ پورے جوش خروش سے اپنے پہلے الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے کروڑوں نوجوان ذہنوں کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا، اس سے ان کی مایوسی میں بے حد اضافہ ہوا ہے، شاید یہی طالع آزماؤں کا مقصد بھی تھا۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ قوم ابھی سن سینتالیس کی بے ضابطگیوں کا خمیازہ بھگت رہی تھی، اوپر سے فارم سینتالیس کا لفڑا کھڑا کر دیا گیا۔ یہ بالکل ویسی ہی واردات ہے جیسے ہسپتال میں کسی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کو کسی ذاتی لالچ یا مخاصمت کی بنا پر کسی دوسرے کم ظرف کے حوالے کر دیا جائے۔ بقول مرزا مُفتہ: مَیں ’عیال‘ ہوں کسی اور کا مجھے پالتا کوئی اور ہے! دیکھتے ہی دیکھتے خزانہ پسند ’قومی رہنماؤں‘ کے مقدمات جس طرح راتوں ختم کیے گئے، پچھلی حکومت کے بائیس ارب ڈالر کے ذخائر اور بیرونی امداد کو جس طرح اللوں تللوں میں اڑایا گیا، جس کا خمیازہ اب روز روز کی بجلی، گیس کی کمر توڑ مہنگائی کی صورت یہ مظلوم قوم بھگت رہی ہے، اور جانے کب تک بھگتتی رہے گی۔ لگتا ہے اب تو اس بدقسمت ملک پہ مسلط ہونے کے لیے میرٹ ہی یہی بنا دیا گیا ہے، بقول شاعر: قافلہ کس کی پیروی میں چلے؟ کون سب سے بڑا لٹیرا ہے؟ رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے کسے نہیں خبر کہ الیکشن میں پیشگی دھاندلی کا سلسلہ تو اسی دن سے شروع ہو گیا تھا جب مجرم کو محرم اور محرم کو مجرم بنانے کا کھیل شروع ہوا تھا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ماضی میں قوم کے دھتکارے ہوئے لوگوں کی مہنگے ترین پروٹوکول کے ساتھ کمپین چلائی جائے، تمام میڈیا ان کے قدموں میں سرخ قالین کی مانند بچھا دیا جائے، اور ان کے مقابل آنے والوں کا جینا حرام کر دیا جائے۔ پتہ نہیں کس مجبوری کے تحت چند لوگوں کے لیے الیکشن کو ’فری اینڈ فیئر‘ بنانے کے لیے الیکشن سے پہلے اور بعد میں کی جاسکنے والی دھاندلی کے سارے حربے آٹھ فروری والے اس الیکشن میں جھونک دیے گئے بلکہ بہت سے تو نظریہ ضرورت کے تحت ایجاد (ذہن میں فتور، ضمیر مردہ اور دولت و عیاشی کی ہوس دماغ کو چڑھی ہوئی ہو تو ہوائی جہاز یا سیٹلائٹ کی بجائے یہی کچھ ایجاد ہو سکتا ہے) کیے گئے۔ مقابل پارٹی کو راستے سے ہٹانے کا سلسلہ اپریل 2022ء ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ملکی مستقبل کے لیے ضرر رساں لوگوں کا گروہ اکٹھا کیا گیاتو لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا، جس کے حیرت ناک نتائج ضمنی الیکشنوں میں سامنے آئے۔ اس پر الیکشن کو التوا میں ڈالنے کے سارے منفی ہتھکنڈے کام میں لائے گئے۔ لوگوں گرفتار اور رسوا ہوئے۔ نئے بننے والے ووٹوں کو گھروں سے دور پھینک دیا۔ اس سے بڑی بد دیانتی اور ظلم کیا ہوگا کہ خواتین کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جائے، بزرگ خواتین کی بے حرمتی کر کے، ان کا مینڈیٹ روایتی ٹھگوں کے کھیسے میں ڈال دیا جائے۔ قومی اور مذہبی غیرت تو یہ کہتی ہے کہ مقابل کوئی بزرگ خاتون ہو تو ان کے احترام میں راستہ یا میدان خالی کر دینا چاہیے۔ موجودہ الیکشن کے ’ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا‘ والے نتائج کی صورتِ حال یہ ہے کہ فارم نمبر 45، فارم نمبر 47 کو پہچاننے سے انکاری ہے۔ دو دو سو سیٹوں کے دعوے دار در بہ در ہیں اور ’نظرِ کرم‘ والے سر بہ سر… افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پورا ملکی وقار اورمیرٹ داؤ پہ لگا کے جو ٹیم سلیکٹ کی گئی ہے، اس کی کارکردگی اور نیتوں سے ہر کوئی آگاہ ہے؟ انھی لوگوں کی اتحادی حکومت نے سولہ مہینے میں ملک اور غریب عوام کا جو حال کیا ،اس کے بارے میں: جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے نگران حکومت بھی انھی کے آوردوں پر مشتمل تھی، جن سے محض چارج واپس لیا جائے گا۔ ملکی صورتِ حال یوں ہے کہ محکمہ تعلیم مسائل کا گڑھ ہے، قومی اور مادری زبانوں کو نظر انداز کر کے دی جانے والی تعلیم عملی زندگی میں بے کار ہے۔ محکمہ صحت جعلی ادویات اور فیک ٹسٹوں کی فیکٹری ہے۔ میڈیا جھوٹ کی نرسری قرار پا چکا ہے۔ بجلی ناکافی اور اس سے وابستہ سمسیائیں ناقابلِ تلافی ہیں۔ زراعت دگرگوں اور کسان ککڑوں کوں ، اسے چھے ہزار میں مَنتوں مرادوں سے ملنے والی کھاد کی بوری پڑوسی ملک میں چھے سو میں آسانی سے دستیاب ہے۔ حالیہ الیکشن کمپین میں ملک کی تقدیر بدلنے کے جو دعوے مسلط پارٹیوں نے کیے، لوگوں کو ان کا ایک ایک لفظ یاد ہے۔ کہیں تین سو فری یونٹ کی نوید سنائی گئی، روٹی کپڑا مکان کا جھانسا بھی سرِ عام چلتا رہا۔ ’روٹی چار روپے‘ والے بھی الیکشن کے بعد چونچ پروں میں دبائے بیٹھے ہیں۔ قول و فعل کے اسی تضاد پر ہی لالہ بسمل نے کہا: یہ ہیں خطمی ریشہ سن لو جھوٹ ہے ان کا پیشہ سن لو وقت مقام کی قید نہیں ہے ہر جا اور ہمیشہ سن لو بدقسمتی یہ کہ رشتے داریوں اور پیسے، جیسے، تیسے کے زور سے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو ملکی مسائل تو کیا اپنے فرائضِ منصبی کا بھی علم نہیں۔ وہ صرف دو کروڑ لگا کے دو ارب کمانے کے ہنر سے واقف ہیں۔ وہ چمچہ صفت لوگ پورا عرصہ اسمبلی حال میں سونے اور اپنی اگلی نسلوں کے لیے سونے کے چمچوں کا بندوبست کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ شاعرنے انھی کی بابت کہا تھا: ہر اِک رول میں فِٹ آتے ہیں رنگا رنگ ڈرامے لے لو اچھی قیمت لگ جائے تو سُخنے، دِرمے ، دامے لے لو