ایک قاری محمد سعید نے میل کی ہے۔ پوچھا: کلاس کنفلکٹ پر مزید لکھیں۔ گویا وضاحت کی ضرورت ہے۔عرض کئے دیتا ہوں۔ طبقاتی جنگ کا تصور کارل مارکس نے پیش کیا تھا۔ اس کا خیال ہے کہ جب ایک طبقہ زیادہ دولت مند ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ بااختیار بھی ہو جاتا ہے۔ دولت اور اختیار اسے ظالم بنا دیتے ہیں۔ ہماری کم اہلی ہے کہ پاکستان کے جن لوگوں کو دانشور پکارا اور سمجھا جاتا ہے وہ سماج میں رونما تبدیلیوں کے فکری و سیاسی اثرات کا مطالعہ کرنے اور پھر اس مطالعہ سے حاصل معلومات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بنا سوچے سمجھے بے تکان بولنے اور لکھنے والا دانشور بن بیٹھا ہے۔ اس دانشور صاحب کو خبر نہیں کہ وہ جو اصلاحات استعمال کر رہا ہے وہ کیسے وضع ہوئیں۔ کن معاشروں میں استعمال ہوئیں اور ان سے انسانیت نے کیا مدد لی۔ طبقاتی جنگ ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے اپنے عہد میں زکوٰۃ کا حکم اس لیے دیا کہ دولت کی تقسیم میں انتظامی مداخلت کر کے کچھ مساوات پیدا کی جاسکے۔ اس اقدام سے یہ ہوا کہ ریاست مدینہ میں کوئی بھوکا نہیں رہا۔ مغرب نے سوشل ویلفیئر‘ بیروگاری الائونس‘ میڈیکل انشورنس‘ اولڈ ہائوسز وغیرہ جیسے مصنوبے کم آمدنی والے اور کمانے کی سکت نہ رکھنے والے افراد کو زندہ رہنے کے حق کے طور پر ترتیب دیئے۔ اس سے وہاں کی محروم آبادی کی پوری نہ سہی کسی حد تک مدد ہو گئی۔ یہ نظام اس حد تک منظم اور وسیع ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں کے افسر لوگ ریٹائرمنٹ سے پہلے مغربی ملکوں کی شہریت لے لیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر پر جب یہ بلجئیم‘ ناروے‘ سویڈن‘ فرانس وغیرہ منتقل ہوتے ہیں تو ان کو وہاں سے بھی پنشن ملنے لگتی ہے۔ ان ملکوں نے طبقاتی جنگ کی شدت کم کرنے پر دھیان دیا ہے۔ کارل مارکس نے طبقاتی جنگ کے دو فریق بتائے ہیں۔ ایک سرمایہ دار اور دوسرے محنت کش۔ سرمایہ دار طبقے کو کارل مارکس بورژوا کہتا ہے جبکہ محنت کشوں کو پرولتاری۔ پاکستان میں بورژوا کلاس کے کئی چہرے ہیں۔ ذات پات‘ جاگیرداری‘ کاروبار‘ گدی نشینی‘ سیاسی وراثت‘ یہ سارے بورژوا چہرے اپنے دائروں میں محروموں کا استحصال کرتے ہیں۔ پرولتاریوں کا ایک ہی چہرہ ہے۔ محنت کش۔ کارل مارکس کہتا ہے کہ سماج اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے ذرائع پیداوار جدید ہوں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں صنعتوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے۔ جاگیردار مہنگی اور دیوہیکل زرعی مشینری استعمال کر رہے ہیں لیکن اینٹیں اٹھانے والے مزدور‘ چھوٹے سے کھیت میں کام کرنے والے کسان‘ بوٹ پالش کرنے والے محنت کش‘ سلائی کڑھائی کرنے والی خاتون اور صفائی کرنے والے لوگوں کے لیے جدید مشینیں نہیں آنے دی گئیں۔ یہاں دولت مند کو حق ہے کہ وہ کم وقت میں جدید مشینوں کی مدد سے اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا لے لیکن مزدور کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کر سکے۔ ظلم تو یہ ہے کہ آج بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لوگ بیلوں سے ہل چلاتے ہیں۔ طبقاتی کشمکش اور عدم مساوات کا مشاہدہ کچی آبادیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور سماجی پیتھالوجی کے مسائل سے ہوتا ہے۔ کاروباری زندگی کی وجہ سے لوگ اپنی اصل کے جوہر سے بیگانہ ہیں۔ جنسی زیادتیکے عروج کا اندازہ طبقاتی جنگ کے نتیجے میں بڑھ رہاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مخصوص طبقات کو سماجی شناخت فراہم کرنے میں ناکام رہا جس سے خود شناخت کا خلا پیدا ہوا۔اپنی شناخت کی کمی والے لوگ اپنے آپ کو نمایاں کرنے یا سپر ایگو کا اعلان کرنے کے لیے گھناؤنے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی خاص شناخت کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی شناخت بحال کرنے کے لیے منفی رویے کا سامنا کریں۔ حالیہ برسوں میں عصمت دری کرنے والے ایسے لوگ سامنے آئے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کو طاقت سے مجبور کرتے ہیں ۔اس طرح کے پرتشدد جرائم لاتعلق سماجی گروہ بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبقاتی دشمن رویوں کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ جب کسی محلے دارکے پاس بے پناہ دولت ہو اوردوسریکے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کو کچھ نہ ہو تو طبقاتی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ دولت مند طبقے نے پاکستانی ریاست کے تینوں ستونوں مقننہ‘ عدلیہ‘ انتظامیہ پر قبضہ کرلیا ہے۔ جس چوتھے شعبے کو ریاست کا ستون کہا جانے لگا وہاں بھی دولت مند اینکروں اور تجزیہ کاروں کا رواج ہو گیا۔ مجھے یقین ہے اگر کل کو ریاست کا کوئی پانچواں ستون گھڑ لیا گیا تو وہ بھی بورژوا طبقے کے قابو میں آ جائے گا۔ صرف یہی نہیں ہوا، ڈراموں‘ فلموں اور ثقافتی شعبے کے دیگر مظاہر پر نظر دوڑالیں۔ نگران کابینہ میں ایک دولت مند کو وزیر ثقافت بنایا گیا ہے جو مدت سے سرکاری اداروں کی سربراہی کرتا رہا۔ کوئی پوچھے پہلے اس نے ثقافت کی کیا خدمت کی اور اب اس کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے؟ میں جمال شاہ کی بات کررہا ہوں۔ اردو اور پنجابی فلموں میں جب عام آدمی کا دکھ اور اس کا سادہ سا رومانس دکھایا جاتا تو لوگ سینما گھروں پر ٹوٹ پڑتے۔ وہ فلمیں سپر ہٹ ہوتیں جن میں ہیرو محروم طبقے اور ولن مراعات یافتہ طبقے کا ہوتا۔ بورژوا کلاس کو لگا کہ فلمیں اور ڈرامے اس کی تصویر کو مسخ کر رہے ہیں تو دولت مندوں نے پہلے فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کو تباہ کیا۔ پھر اپنی دولت سے منظر بدل دیئے۔کردار دولت مند‘ کرداروں کی زبان عام آدمی کے لیے انجان اور کرداروں کی نفسیات محنت کشوں کی سوچ کے برعکس۔ اب اینٹر ٹینمنٹ انڈسٹری پر بورژوا کا قبضہ ہے۔سیاست کے بعد ثقافت کا میدان بھی بالائی طبقات کی ملکیت ٹھہرا۔