مسلمان ملکوں میں ریاست کے اختیارات کے لحاظ سے (طاقتور یا کمزور) "President" کو صدرؔ کہتے ہیں ۔ صدرؔ عربی زبان کا لفظ ہے لیکن فارسی بولنے والے ، اہلِ ایران انقلابِ ؔایران کے بعد اپنے طاقتور حکمران کو صدرؔ ہی کہتے ہیں ۔ ہمارا صدر طاقتور ہو یا وزیراعظم سے کمزور صدر ؔہی کہلاتا ہے اور ہمسایہ ملک بھارت میں ’’راشٹر پتی ‘‘ ۔ راشٹرؔ کے معنے ہیں ۔ قوم یا مُلک اور پتیؔ کے معنی ہیں ۔ پرورش کرنے والا والد ، مالک اور شوہر لیکن عموماً ہندو ( ہندوستانی) عورتیں تو اپنے شوہر کو ’’ پتی پَرمیشور‘‘ (بھگوان کی طرح کا شوہر) سمجھتی اور کہتی ہیں ۔

جناب عارف علوی کے صدرِ پاکستان منتخب ہونے پر، اُن کی اہلیۂ محترمہ بیگم ثمینہ علوی نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہُوئے دُعا کی ہے کہ ’’ میرے شوہر عوام سے کئے گئے وعدے ضرور پورے کریں گے !‘‘ ۔ ثمینہ ؔبھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ہیں ۔ ’’ قیمتی چیز‘‘۔ معزز قارئین! ۔ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کی غیر فاؔطمی اولاد علویؔ کہلاتی ہے ۔ مَیں نے  الیکٹرانک میڈیا پرجنابِ عارف علوی کو عوامی جلسوں اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے اور"Panel Discussion" ۔ مَیں ’’ شعلہ بیانی‘‘ کرتے ہُوئے کئی بار دیکھا تو مجھے اُستاد شاعر مومن خان مومنؔ کا یہ شعر یاد آیا کہ …

تھی سُرخ خوں سے ، جو وہ صَصمام جانساں!

ہوتا تھا صاف، شعلہ ٔ یا قوت کا گُماں!

علوی ؔ ہونے کے ساتھ ساتھ جناب علوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ’’ وہ بھی سیّد کہلانے والے اور 9 ستمبر  2018ء کو ریٹائر ہونے والے صدر ممنون حسین کی طرح کراچویؔ ہیں ۔ کراچیؔ میں ولی ٔ کامل عبداللہ شاہ غازی ؒ  کا مزارِ اقدس ہے اور بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جائے پیدائش اور مقامِ مدفن بھی جو شہر قائد ؔ کہلاتا ہے ۔ کسی دَور میں ’’ ایشیا کا پیرس‘‘ اور ’’روشنیوں کا شہر‘‘ بھی کہلاتا تھا۔ لاہور میں 25 دسمبر 1949ء کو پیدا ہونے ، والے کشمیر ی نژاد پنجابی وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دَور میں ، جتنے آئینی اختیارات سیّد ممنون حسین کو حاصل تھے ۔ اُتنے ہی، 25 نومبر 1952ء کو لاہور ہی میں پیدا ہونے والے وزیراعظم عمران خان کے دَور میں صدر عارف علوی کو حاصل ہوں گے !۔ 

اعتزاز احسن۔ شکستِ فاتحانہ؟

 ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ کے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن بظاہر صدارتی انتخاب میں ہار گئے ہیں لیکن ، میری دانست میں اُستاد شاعر جناب جگر مرادؔ آبادی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ …

تجھے اے جگر  ؔ مُبارک یہ شکستِ فاتحانہ!

دراصل شکست ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ’’روحانی فرزند‘‘ کہلانے والے آصف زرداری صاحب کو ہُوئی کہ ۔ ’’اُن کے والدِ مرحوم ، حاکم علی زرداری نے جون 1997ء کے اوائل میں ’’ امن کی آشا‘‘ کے علمبردار روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مولانا حسرتؔ موہانی، محمد علی جناحؒ سے بڑے لیڈر تھے ‘‘۔ (حاکم صاحب نے قائداعظمؒ  نہیں کہا تھا)۔

آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے تو اُنہوں نے ’’ قائداعظمؒ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج ‘‘ اسلام آباد کو یونیورسٹی میں تبدیل کر کے اُس کا نام ’’ ذوالفقار علی بھٹو ( شہیدؔ) یونیورسٹی ‘‘ رکھ دِیا تھا۔ معزز قارئین! مَیں اپنے 4 ستمبر کے کالم میں بیان کر چکا ہُوں کہ ’’ بیرسٹر اعتزاز احسن کے دادا چودھری بہاول بخش اور والد صاحب چودھری محمد احسن ’’تحریکِ پاکستان‘‘ کے نامور کارکن تھے اور چودھری محمد احسن نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملّت ک انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کِیا تھا ‘‘ ۔ ایک نُکتہ یہ بھی ہے کہ ’’ لاہور کے ایک حلقۂ انتخاب میں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے پولنگ ایجنٹ تھے ‘‘ ۔ یہ بات بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حِصّہ ہے کہ ، ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) اُس صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے "Covering Candidate" تھے ۔

تیرھویں ؔنہیں ساتویں ؔصدر؟

بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’ عارف علوی صاحب پاکستان کے تیرھویں ؔصدر نہیں بلکہ نویں ؔ صدر ہیں ۔ مَیں مارشل لائی صدور ۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان ، جنرل صدر یحییٰ خان ، جنرل صدر ضیاء اُلحق اور جنرل صدر پرویز مشرف کو نہیں مانتا!‘‘ لیکن معزز قارئین!۔ مجھے اعتزاز احسن صاحب سے اختلاف ہے۔ اِس لئے کہ پہلا مارشل لاء نافذ کرنے والے ( منتخب صدر) سکندر مرزا اور دُنیا کے پہلے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو کیوں رعایت دِی جائے؟۔ اِس لئے میرا مؤقف یہ ہے کہ جناب عارف علوی پاکستان کے ساتویں منتخب صدر ہیں ؟۔

قائداعظمؒ اور اتا تُرک!

بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ ’’ بابائے قوم‘‘ (Father of the Nation) کہلاتے تھے اور جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال پاشا ۔’’ اتا ترک‘‘ ( ترکوں کے باپ ) قائداعظمؒ نے ’’گورنر جنرل آف پاکستان ‘‘ کا منصب سنبھالتے ہی اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھا ۔ اِس سے قبل ’’ خلافتؔ کے ناکارہ ادارے کو ختم کرنے والے اتا تُرک ؔنے بھی ایسا ہی کِیا تھا لیکن ’’ عُلمائے سُو‘‘ کی قسمت میں ملّتِ اسلامیہ کے اِن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر رُسوائی حاصل کرنا لِکھاتھا۔  قائداعظمؒ ۔ پاکستان کو حقیقی، اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا عزم رکھتے تھے لیکن اُنہوں نے واضح کردِیا تھا کہ ’’پاکستان میں "Theocracy" ( مولویوں کی حکومت ) نہیں ہوگی!‘‘ ۔ ’’مصّورِ پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے بھی کہہ دِیا تھا کہ …

’’دِن مُلاّ فی سبیل اللہ فساد‘‘

خود ساختہ قائداؔعظم ثانی، سزا یافتہ ناہل وزیراعظم نواز شریف نے، تحریکِ پاکستان کے مخالف اور اُن کے خلاف کُفر کا فتویٰ دینے والے ’’جمعیت عُلمائے ہند ‘‘ کے کانگریسی مولویوں کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب کو ، صدارتی امیدوار بنوا کر ہروا دِیا۔ بظاہر متحدہ لیکن، بکھری ہُوئی اپوزیشن میں شامل کئی دوسرے سیاسی جماعتوں نے بھی نہ جانے فضل اُلرحمن صاحب سے کِس جنم کا بدلہ لِیا ہے ؟ ۔ ایک پرانا لطیفہ ہے۔’’ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ ’’ تم کتنے بھائی ہو؟‘‘۔ اُس نے جواب دِیا کہ ’’ سات !‘‘ ۔ پہلے نے کہا کہ ’’ اگر تُم بارہ بھائی بھی ہوتے تو میرا کیا بگاڑ لیتے؟‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ مَیں اردو سپیکنگ پنجابی ہُوں۔ مشرقی پنجاب کا مہاجر ہونے کے باوجود بھی مہاجر نہیں کہلاتا۔  8 اپریل 2015ء کوکراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جناب عمران خان نے کہا تھا کہ ’’ میری والدہ شوکت خانم صا حبہ بھی 1947ء میں بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں اِس لئے مَیں بھی آدھا مہاجر ہُوں‘‘ ۔ اِس پر مَیں نے اپنے 10 اپریل کے کالم میں ۔ عمران خان سے مخاطب اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا یہ شعرلکھا تھا کہ …

بدل نہ طَورنیا رُوپ ختیار نہ کر ! 

 مہاجرت ؔکا سیاست میں کاروبار نہ کر !

بہرحال مَیں خُوش ہُوں کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک محبّ وطن پاکستانی اور پُر خلوص کراچویؔ جناب عارف علوی کو صدرِ پاکستان منتخب کرا دِیا۔ مَیں نے جب بھی الیکٹرانک میڈیا جنابِ عارف علوی کو دیکھا تو وہ اکثر کالے رنگ کی صدریؔ ‘ پہنے ہُوئے تھے ۔ 4 ستمبر کو بھی جب موصوف ، اپنے دوستوں اور سیاسی حریفوں سے ’’گُھٹ گُھٹ جپھّیاں ‘‘ ڈال رہے تھے ۔ صدریؔ ۔ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’ چھوٹا کُرتا بے آستینوں کی واسکٹ ‘‘ فارسی میں ’’فتوحی ‘‘ اور پنجابی میں پتوہی ؔ لیکن، ہماری یہاں صدریؔ زیادہ مُستعمل ہے ۔ 4 ستمبر کو نو منتخب صدر کے رُوپ میں جب ، میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے جنابِ عارف علوی کو دیکھا تو فوراً ہی اپنے ’’ سیاسی ماہیا‘‘ میں کہا کہ …

سوہنی کالی تہاڈی صدری ؔاے 

اِک جپّھی ساڈے نال وِی 

نئیں تاں ساڈی بے قدری اے

بہرحال!۔ صدارت مآب جنابِ عارف اُلرحمن علوی یاد رکھیں کہ ’’ پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام اب محض کسی صدر یا وزیراعظم کی جپھّیوں سے بہلنے والے نہیں‘‘۔ آپ خُود بھی سمجھتے ہوں گے ؟۔