Common frontend top

سعد الله شاہ


ورلڈ کپ بھارتی کھلاڑی روتے رہ گئے!


درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی اس میں کیا شک ہے کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم ناقابل شکست رہی اور پھر فائنل آ پہنچا۔ ایک غروراور تکبر اس کے انداز و ادا سے جھلکتا تھا وہ وقت سے آگے نکل کر سوچتے تھے کہ ورلڈ کپ تو ان کی جیب میں پڑا ہے اور ان کو اولمپکس پر نظریں جما لینی چاہیے۔ لگتا بھی کچھ ایسے ہی تھا کہ کوئی ٹیم ان کے سامنے ٹھہرتی
بدھ 22 نومبر 2023ء مزید پڑھیے

زندہ لوگ اور زندہ معاشرہ

اتوار 19 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں صرف ایک شعر اور کہ دیکھ لینا کہ یہی وقت چلنے کا۔ آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں۔ یقینا ٹھہرائو اور جمود موت ہے جبکہ پیہم چلتے رہنا اور عمل میں رہنا زندگی ہے۔ بات زندگی اور موت کی چلی ہے تو اس میں آج نہایتپتے کی بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک الگ بات ہے کہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے
مزید پڑھیے


عوام کچھ اور سوچتے ہیں

هفته 18 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہے کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی لیکن کیا کریں ’’ہوس کو نشاط کار کیا کیا‘‘ ’’مل بھی جائے گر یہ دنیا ساتھ تیرے۔ پھر بھی شاید اک کمی باقی رہے گی‘‘۔ اور پھر کمی کا احساس بھی اس کو ہوتا ہے جس کے پاس بہت کچھ ہو۔ آنکھ بہرحال نہیں بھرتی۔ بات تو میں نے رومانٹک چھیڑی تھی مگر یہ سیاست میں چلی گئی اور سیاست ہے کہ ہر جگہ چلی آتی ہے۔ کیا کریں حرص و ہوس کا کوئی کنارہ
مزید پڑھیے


سولہ ماہ سنگ میل یاسنگ راہ!

جمعرات 16 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے جس طرح ہم نے گزارہے ہیں وہ ہم جانتے ہیں دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے چلیے اس مناسبت میں ایک شعر اور کہ سعد پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے ۔انسان کو اپنے شب و روز کا کیا معلوم کہ کس گلی میں صبح ہو اور کس گلی میں شام ہو جائے۔ مگر تحرک کا نام زندگی ہے یعنی ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ سوچا
مزید پڑھیے


مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا

منگل 14 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
تلخیٔ زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ ہم کوئی خواب سی حقیقت میں یا حقیقت جڑی ہے خواب کے ساتھ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ سودوزباں کی بستی میں۔ کون کتنا چلے خواب کے ساتھ۔ رنگ و بو پر سمجھ کی گئی۔ کون بکھرا مگر گلاب کے ساتھ ۔ بات یہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھیں اور کیوں لکھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں یا تو کوئی دلچسپ کہانی ہو کوئی انشا پردازی ہو اور یا کوئی گہری مقصدیت ۔ غالب نے کہا تھا زندگی اپنی جب اس رنگ میں
مزید پڑھیے



میرا دشمن بھی خاندانی ہو

اتوار 12 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
لفظ غیرت پہ اس کو حیرت تھی دیکھنے والی اس کی صورت تھی خامشی میں تھی درد کی تاثیر کیا وضاحت تھی کیا بلاغت تھی ایک شعر اور پڑھ لیں: آسماں سے لائی زمیں پہ مجھے یہ میری اولیں محبت تھی یہ تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہنوط آدم کی طرف اشارہ ہے یہ سب محبت ہی میں تو ہوا تھا اس پر ہمارے دوست ندیم نے کہا تھا اپنی گردن جھکا کے بات کرو۔ تم نکالے گئے ہو جنت سے۔ بات کسی اور طرف نکل جائے گی کہ مجھے تو ایک خاص بات کرنی ہے کہ جس کا تعلق اخلاقیات سے اور جس کے بارے
مزید پڑھیے


یہ کس کی آزمائش ہے!

هفته 11 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
آج بھی میرا نہیں اور میرا کل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں میں روز ایک نئے تجربے سے گزرتا ہوں۔ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے۔ ایک ہی وقت میں اپنی سوچیں کدھر کدھر سفر میں رہتی ہیں۔ کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ایک ہی وقت میں غزہ کے دربدر مظلوموں کا دکھ اور اس پرسوا اپنے
مزید پڑھیے


انتخابی اتحاد اور میکس ویل

جمعه 10 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
اچھا ہے عجز و ناز مگر اس قدر بھی کیا دنیا سے بے نیاز مگر اس قدر بھی کیا یوں بے وفائی کر کہ کسی کو گماں نہ ہو کہ ہم سے احتراز مگر اس قدر بھی کیا باتیں تو آج مزے مزے کی ہوں گی مگر پہلے ایک اور شعر کہ ہمارے موضوع سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہ داغ داغ آنکھیں ہیں یہ داغ داغ دل۔ اے میرے شیشہ ساز مگر اس قدر بھی کیا۔ سب سے پہلے تو ضمنی سرخی کہ ن لیگ اور ایم کیو ایم مل کر عام انتخابات لڑیں گے ویسے یہ ہمارے لئے تو کوئی خبر نہیں کہ
مزید پڑھیے


کرکٹ میں فخر کے شاعرانہ چھکے!

بدھ 08 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
گریۂ شب کو سیلاب بنا دیتی ہے وہ ہستی مجھے بے آب بنا دیتی ہے میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب، بنا دیتی ہے ظاہر ہے آج میں کرکٹ پر لکھوں گا اور خاص طور پر فخر پر ،مگر پہلے ایک شعر: ’’بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا، یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے‘‘ تو کچھ ایسی ہی اننگز فخر زمان نے کھیلی جسے سچ مچ دھواں دار بیٹنگ کہا جا سکتا ہے۔ پھر ہم تو شاعر ٹھہرے کہ کہیں نہ کہیں سخن ہاتھ آ جاتا ہے۔ اس حوالے سے
مزید پڑھیے


انسان کی بھلائی خالق کے نظام میں!

هفته 04 نومبر 2023ء
سعد الله شاہ
کسی کی نیند اڑی او رکسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے ایک اور خیال کہ یہ تشنگی تھی ہماری کہ سحر صحرا کا۔ کہ دور تک ہمیں کھینچے لئے سراب گئے۔ یہ خیال مثبت انداز میں بھی آ سکتا ہے کہ اختتام سفرکھلاہم پر۔ وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ۔ آج لکھنا تو کچھ اور تھا بس ایک کلپ سن لیا تو اچھا لگا۔ سوچا کہ اسی موضوع پر کچھ بات کی جائے۔ ایک بچی سیرت فاطمہ نے نہایت عمدہ انداز میں گفتگو
مزید پڑھیے








اہم خبریں