Common frontend top

ڈاکٹر طاہر مسعود


’’ہم‘‘ سے ’’میں‘‘ کا سفر


ہمارے ایک معاصر کالم نگار نے ’’میں‘‘ کے بجائے ’’ہم‘‘ کے صیغہ میں لکھنے پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں۔ چونکہ مثلاً ہم اکثر سوچتے ہیں‘ ہم نے کیا دیکھا وغیرہ تو اس لئے یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے کہ ہمارے پرانے لکھنے والے مثلا ابن انشا، نصراللہ خاں یا مشفق خواجہ وغیرہ اگر ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا صیغہ استعمال کرتے تھے تو کیوں؟ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جن معاصر کالم نگار نے ہم کے صیغے کا مذاق اڑایا اور چوٹیں کی ہیں ان کی اپنی زبان اردو نہیں
پیر 29 اپریل 2019ء مزید پڑھیے

اعتبار کی بے اعتباری

جمعرات 25 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
اخبارات اور چینلوں کے حوالے سے یہ شکایت عام ہے کہ میڈیا جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کو پھیلانے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے میڈیا کا اعتبار اور وقار پہلے جیسا نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ اخبار میں کسی خبر کا چھپ جانا ہی کافی تھا۔ اس کی صداقت پر شک و شبہ کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ اب معاملہ برعکس ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ جو میڈیا کے اندرونی نظام اور معاملات سے ذرا بھی واقف ہے، اچھی طرح جانتا اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اب معروضیت، غیرجانبداری اور سچائی وغیرہ محض
مزید پڑھیے


فتوے اور ہماری پریشانی

بدھ 24 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
مصرکے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ ناراض بیوی کا شوہر جنت میں نہ جا سکے گا۔یہ پڑھ کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اخبار لیے دوڑے دوڑے اہلیہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھرتھراتے کانپتے عرض کیا: ’’ملکہ عالیہ! نصیب دشمناں آپ مجھ سے خفا تو نہیں۔ کوئی بات ہماری آپ کی طبیعت پر گراں گزری ہو تو ہم دست بستہ آپ سے معافی کے طلب گار ہیں‘‘۔ ہم نے اخبار ایک طرف رکھ کر سچ مچ ان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔ اہلیہ نے جو بچوں کیلئے ناشتہ تیار کر رہی تھی، پلٹ
مزید پڑھیے


گیلیلیو سے ڈاکٹر عطا الرحمن تک

پیر 22 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
پریشان کن اور تشویش ناک خبروں کے درمیان ایک حوصلہ افزا بلکہ ناقابل یقین سی خبر ہم نے پڑھی اور پڑھ کر ابھی تک حیرت سے گم سم ہیں۔ یہ خبر ممتاز سائنس دان ڈاکٹر عطا الرحمن کے حوالے سے آئی ہے کہ پاکستان نے تحقیق کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب پاکستان کا اس میدان میں مقابلہ دوست ملک چین سے ہے۔ چونکہ ہم پچھلے تیس برسوں سے تعلیم و تعلّم ہی کے پیشے سے وابستہ ہیں اور تحقیق و تدریس کا ہماری یونیورسٹیوں میں جو حال ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیے


جالبی صاحب!

هفته 20 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ڈاکٹر جمیل جالبی جن کا بیمار جسم بے حس و حرکت ایک مدت تک سانس کی ڈور سے بندھا رہا مگر اس طرح کہ چلنا پھرنا تو الگ‘ بات چیت کے بھی قابل نہ تھے‘ کبھی کبھی آنکھیں کھولتے تھے مگر اپنے اوپر جھکے ہوئے ملاقاتی کو پہچان نہ پاتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے خاور جمیل نے باپ کی تیمار داری میں کوئی کسر کمی نہ چھوڑی۔ جب بیماری نے شدت اختیار نہ کی تھی اور وہ ملنے ملانے کے قابل تھے تو ایک دوپہر میں ان کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوا تھا‘ انہوں نے
مزید پڑھیے



صبر اے دوست

جمعرات 18 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
حکومت پر ،جو تبدیلی کی خواہش میں ڈوبے ہوئے جذباتی عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی ہے، ہر طرف سے تنقید کے کوڑے برس رہے ہیں۔ کسی دن کا بھی اخبار اٹھائیے، کوئی بھی چینل دیکھ لیجئے، اقتصادی بدحالی، امن و امان کے نفاذ اور دوسرے حوالوں سے ایسی اعتراضات کی بوچھاڑ ہے کہ خودہمیں وزیر اعظم اور ان کی ٹیم پر رحم سا آنے لگا ہے۔ یہ نوبت آئی کیوں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بڑے بڑے وعدؤں اور دعوؤں کے ساتھ آئی ہے۔ عوام نے وزیراعظم کے دکھائے ہوئے خوابوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار
مزید پڑھیے


خطرے کی گھنٹی

پیر 15 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ہم نے اخبار پڑھنا تقریباَ چھوڑ رکھا ہے۔ کل کا اخبار اٹھایا سیاہ حاشیے میں کوئٹہ کے بم دھماکے اور ان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد درج تھی۔ ہم نے یہ اخبار اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوئی، ایک گھونسہ ساپڑا، دل بیٹھنے لگا، آنکھیں تو عرصہ ہوا خشک ہو گئی ہیں، آئندہ کیا ہو گا؟ کیا بم دھماکے اور متواتر ہلاکت خیزی ہی ہماری تقدیر میں لکھ دی گئی ہے۔ پھر حکومت قانون نافذ کرنے والے ادارے، ایجنسیاں ان سب کا جواز کیا ہے؟ وہ
مزید پڑھیے


92نیوز اور چھپا ہوا لفظ

جمعه 12 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
92نیوز نے اپنی زندگی کے دو سال مکمل کر لئے اور جس دھوم دھام سے اس کی دوسری سالگرہ مختلف اسٹیشنوں پہ منائی جا رہی ہے اس سے کچھ یوں شبہ ہوتا ہے مرتے ہوئے پرنٹ میڈیا میں نئی زندگی پیدا ہو گئی ہے۔ اگر اس اخبار کی ترقی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو کچھ عجب نہیں کہ مطبوعہ صحافت میں نئی جان پڑ جائے۔ لوگ باگ فیس بک اور سوشل میڈیا کو چھوڑ چھاڑ کر پھر سے اخبار بینی کی طرف مائل ہو جائیں۔ ایسا ہو جائے تو ایسا ہونا ہی چاہیے اس لئے کہ یہ سوشل
مزید پڑھیے


اب بھی وقت ہے!

پیر 08 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
آٹھ ماہ کی مختصر سی مدت میں نئی حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ مایوسی میں بدلتی جا رہی ہیں۔ تبدیلی کا جو خواب دکھایا گیا تھا اور جس کے بارے میں ببانگ دہل دعویٰ کیا گیا تھا کہ تبدیلی آ چکی ہے‘ تبدیلی کا وہ خواب اگر سچا ہے تو اسے تبدیلی معکوس ہی کہا جائے گا یعنی تبدیلی خرابی کی طرف‘ بد سے بدتر کی طرف۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور ایسا ہوتا کیوں ہے کہ جس حکومت کو عوام نہایت چائو سے نہایت پیار سے اقتدار میں لاتے ہیں۔ وہ مایوس و محروم کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔
مزید پڑھیے


اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا

پیر 01 اپریل 2019ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ہمیں کیا معلوم تھا کہ بدعنوانی کے خاتمے اور بدعنوانوں کو پکڑنے اور سزا دینے کا عزم رکھنے والی حکومت کے ایک وزیر صاحب بھی بدعنوان نکلیں گے۔ بدعنوانی میں اتنے طاق ہوں گے کہ چھوٹی سی مدت میں کروڑ پتی سے ارب پتی بن جائیں گے۔ مایا تیرے تین نام پرسو، پرسا، پرس رام۔ سادھو، سنت، بھکشو، پنڈت اور صوفی سبھی دنیا اور دولت دنیا کو مایا کہتے ہیں۔ یعنی یہ سب ایک دھوکا ہیں۔ مگر آدمی بھی خوب شے ہے زبان سے دنیا کو دھوکے کی ٹٹی کہتا ہے اور عملاً گردن تک دنیا اور محبت دنیا میں
مزید پڑھیے








اہم خبریں