اسلام آباد،لاہور (خبر نگار،نامہ نگار خصوصی) عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو فنڈز جاری کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ، جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ آج کیس کی سماعت کرے گا ۔عدالت عظمیٰ نے احتساب کی نئی عدالتوں کے قیام کے معاملے میں وزارت قانون سے تفصیلی رپورٹ طلب اور وفاقی سیکرٹری قانون کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے لیے جعلی بینک اکاوئنٹس استعمال کرنے کے الزا م میں گرفتار ملزمان طحہ رضا اورحسین لوائی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت دس دن کے لیے ملتوی کردی ۔ نیب کی طرف سے سپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوئے اور بتایا کہ وزارت قانون نے احتساب کی نئی عدالتیں قائم کرد ی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں ایک اور اسلام آباد میں تین نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔ جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ وزارت قانون سے احتساب عدالتوں کے نئے ججز اور سٹاف سے متعلق رپورٹ منگوا لیتے ہیں،رپورٹ دیکھنے کے بعد ضمانت کی درخواست کا جائزہ لیں گے ۔عدالت عظمیٰ نے پاکستان سٹیل مل ملازمین کی ترقیوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کوآپس میں بیٹھ کر مل کے معاملات حل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ تین رکنی بینچ نے ورکرز کو بقایاجات کی ادائیگی کی ہدایت کرتے ہوئے سینئر وکیل رشید اے رضوی کو معاملے میں ثالث مقرر کر دیا۔عدالت نے سٹیل مل کی نجکاری سے متعلق سیکرٹری نجکاری کمیشن اور سیکرٹری صنعت و پیداوار سے دو ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اور سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں تماشا مچایا ہوا ہے ،پی آئی اے ، ہیوی میکنیکل کمپلیکس، شپ یارڈ بند پڑے ہیں،کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہا ہے اور کسی کو کچھ پتہ نہیں۔وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو نے عدالت کو بتایا کہ جب تک سٹیل مل کے واجبات ختم نہیں ہوجاتے کوئی پاکستان سٹیل مل کو لینے کے لیے تیار نہیں ،اس سال ستمبر میں بولیاں آنے کا امکان ہے ۔چیف جسٹس نے کہا فاقی وزرا بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے ؟ ،سرکار کا پیسہ بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صنعتی پیداوار کو کہاکسی قابل آدمی کو آنے دیں آپ گھر جائیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا پاکستان کے بحری جہاز چائنہ میں بن رہے ہیں، شپ یارڈ بند پڑا ہے ،نجی سٹیل مل منافع میں ہے تو سرکاری سٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے ۔چیف جسٹس نے سٹیل مل کی حالت زار پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کو چلائیں، سٹیل مل کے افسران سے پیسے ریکور کیے جائیں۔چیف جسٹس نے اسد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اسد عمر صاحب آپ بتائیں بڑی خراب صورتحال ہے ۔ جس پر اسد عمر نے کہا کہ میرا سٹیل مل سے دور دور تک تعلق نہیں،مجھے معلوم نہیں عدالت نے مجھے کیوں بلایا،ڈاکٹر حفیظ شیخ سٹیل مل کے معاملات دیکھ رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا جو سٹیل مل لے گا اس کی زمین بھی بیچ ڈالے گا، سٹیل مل کا چیئرمین ملک سے باہر گھوم رہا ہے ،یہاں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا سٹیل مل مردہ گھوڑا ہے کتنا عرصہ کھائیں گے ۔سٹیل مل کے وکیل نے کہا چائنیز ماہرین کے مطابق سٹیل مل کو چلانے کے لیے 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے ۔