مکرمی !سپریم کورٹ کے حکم پربالآخرعام انتخابات کے لیے 8فروری 2024 کی تاریخ پر اتفاق ہوگیا۔ انتخابات کے انعقادکے حوالہ سے بے یقینی ختم ہوئی۔اسمبلی تحلیل کے 84دن بعد انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سب سے اہم نقطہ شفاف انتخابات کا انعقادہے۔قبل ازیں صوبہ پنجاب اور کے پی کے میں90دن کے اندر انتخابات کا آئینی تقاضہ پورا نہیں ہوسکا۔نگران سیٹ اپ کے طویل ہونے سے شک و شبہات میں اضافہ فطری تھا۔اس صورتحال میں عام انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ ہوا ہے۔اب شیڈول آئے گا اور عوام کو فیصلہ کرنے کا ایک دفعہ پھر موقع ملے گا۔آج حالات بہت مختلف ہیں موجودہ سیاسی صورتحال میں بہت زیادہ شک و شبہات ہیں۔پی ٹی آئی کے چیرمین پابند سلاسل ہیں اور انکی جماعت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔سب سے اہم سوال پی ٹی آئی کے بطور جماعت انتخابی عمل میں شرکت پر اٹھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن سے بہت سی شکایات ہیں۔میاں نواز شریف کی آمد اور ریڈ کارپٹ استقبال سمیت قانونی ریلیف سپیشل ٹریٹمنٹ سمجھا جاتا ہے۔ میاں نوازشریف کو جو پروٹوکول میسر ہے وہ دیگر سابق وزرااعظم کے لیے نہیں۔دوسری طرف چیرمین پی ٹی آئی اور انکی جماعت کے حوالہ سے خدشات ہی خدشات ہیں۔مسلم لیگ (ن) مینار پاکستان پر جلسہ کرتی ہے اور پی ٹی آئی کسی سطح پر بھی سیاسی سرگرمی نہیں کرسکتی۔ نگران حکومت بھی غیر جانبداری کا تاثر قائم نہیں کرسکی۔انتخابات میں تاخیر میاں نوازشریف کی واپسی اور قانونی پیچیدگیوں کے دور ہونے سے جوڑا گیا۔انتخابات سے قبل ہی ماحول اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد سے زیادہ اہم نتائج کا تسلیم کیا جانا ہے۔ سیاسی استحکام انتخابات کے انعقاد سے زیادہ شفاف انتخابات سے مشروط ہے۔کل تک عمران خان کو لاڈلا کہنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کوآج لاڈلا قرار دیا جارہا ہے۔یہ الزامات بلاجواز نہیں۔ (سلمان احمد قریشی)