الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ای ایم ایس سسٹم پر موصول ہونے والے عام انتخابات 2024ء کے حتمی و سرکاری نتائج میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کرلی، (ن) لیگ دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے ، نتائج میں تاخیر سے بہت سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے اور الیکشن کی شفافیت پر سوالات اُٹھا دئیے ہیں، گو کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن شفاف اور منصفانہ تھے مگر زمینی حقائق اس بات کی نفی کر رہے ہیں ۔ 8فروری کے الیکشن کا شدت سے انتظار ہو رہا تھا، انتخابی مہم کے سلسلے میں امیدوار اور ان کے حامی بہت مصروف رہے ، اس دوران معمولات زندگی زیر التواء تھے، سب کو اُمید تھی کہ الیکشن کے بعد معاملات بہتری کی طرف جائیں گے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مسائل ختم ہونے کی دوبارہ سر اٹھائیں گے ، غیر یقینی صورتحال سے ملکی معیشت کو مزید خسارہ ہوگا جس کا نقصان صرف اور صرف غریب اور متوسط طبقے کو ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ الیکشن کے تضادات سے ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں؟ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے پاکستان میں الیکشن کے روز موبائل سروس کی معطلی اور پر تشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا، اسی طرح امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد اور دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے جس سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ عالمی سطح پر بھی عام انتخابات کا امیج درست نہیں ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے ، انتخابی نشان سے محرومی ، سخت پابندیوں ، رکاوٹوں ،پکڑ دھکڑ اور مبینہ تشدد کے باوجود ایک جماعت کے حامیوں کی طرف سے کثیر تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنا ثابت کرتا ہے کہ لوگ پی ڈی ایم طرز حکومت نہیں چاہتے مگر الیکشن کا جو بھی حتمی رزلٹ آئے پی ڈی ایم کا ڈول ایک مرتبہ پھر ڈولا جا رہا ہے، لاہور میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے درمیان ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہو چکا ہے،دونوں رہنمائوں حکومت سازی پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو قومی اسمبلی اور خیبرپختونخواہ میں بھاری مینڈیٹ حاصل ہوا ہے، پنجاب میں بھی آزاد امیدوارآگے ہیں۔ جمہوری نقطہ نظر سے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے کی دعوت ملنی چاہئے مگر ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ 2018ء کے الیکشن میں بھی عمران خان کی حکومت آزاد امیدواروں کی حمایت سے بنائی گئی جس کیلئے جہانگیر ترین المعروف اے ٹی ایم کے طیارے نے اہم کردار ادا کیا تھا، اس پریکٹس کو ختم ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، اگر ہم تھوڑا پس منظر میں جائیں تو سانحہ مشرقی پاکستان بھی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا، اُس وقت واضح اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دے دیا جاتا تو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دو لخت ہونے سے بچ سکتی تھی۔ الیکشن میں لوگوں کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ سارے کام کاج چھوڑ کر ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھے رہے،موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش کے باعث قصبوں اور دیہات کے نوجوانوں نے شہروں کا رُخ کیا اور وہاں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سے اپنے موبائل کو WIFIکے ذریعے چلاتے کرتے نظر آئے، نگران حکومت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ انٹرنیٹ بند نہیں ہوگا مگر موبائل سروس بند ہونے سے انٹرنیٹ بھی بند ہو گیا، نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگراں وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے الیکشن کے دوسرے دن پریس کانفرنس میں کہا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ الیکشن کے دن وسیب کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے واقعہ نے پورے وسیب کو مغموم کر دیا۔ اس الیکشن میں بہت سے علاقوں میں بڑے بڑے برج بھی اُلٹ گئے اور نامور سیاستدانوں کو آزاد امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے ابتدائی نتائج کی تیاری اور اعلان میں تاخیر نے انتخابات کے منظم انعقاد کو گہنا دیا جس سے انتخابی نتائج کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں، فافن کی طرف سے عام انتخابات سے متعلق ابتدائی مشاہدہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں شفافیت پولنگ اسٹیشنز تک محدود رہی تاہم ریٹرننگ افسر (آر او) کے دفتر میں شفافیت پر سمجھوتا کیا گیا، ریٹرننگ افسر کے دفاتر میں شفافیت پر سوال اٹھ سکتا۔ انتخابی نتائج میں تاخیر مزید تضادات کا باعث بنی ہے،صوبہ خیبرپختونخواہ کے ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع شانگلہ میں پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں تین کارکنوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں، قومی اسمبلی کے سابق رکن اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ شمالی وزیرستان میں فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں ، محسن داوڑ بھی انتخابی نتائج میں تاخیر پر احتجاج کر رہے تھے ، انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ۔ نگران حکومت امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائے کہ جو لوگ الیکشن کے لیے باہر آ سکتے ہیں وہ احتجاج کے لیے بھی نکل سکتے ہیں، پاکستان غریب اور مقروض ملک ہے اور غریبوں کے ماحصل سے الیکشن پر چالیس ارب روپے کا کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے ، اگر یہ ضائع ہو گیا تو بہت بڑا قومی نقصان ہوگا۔