اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے سینٹ انتخابات بارے الیکشن اسکیم طلب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کمیشن کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے ۔پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینٹ انتخابات بارے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی ۔دوران سماعت عدالت نے آئین کے آرٹیکل 218ذیلی آرٹیکل 3کی نشاندہی کی اور قرار دیا کہ صاف ،شفاف ،آزادانہ،منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا اور الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن سینٹ انتخابات کے بارے بظاہر الیکشن کمیشن نے کوئی سکیم نہیں بنائی۔عدالت نے ہدایت کی کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے تمام ارکان آج منگل کو پیش ہوکر سینٹ الیکشن کی انتخابی سکیم دیں ۔چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ سینٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کا استعمال بڑھنے کا تااثر عام ہے ،الیکشن کمیشن بتائے کہ سینٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سینٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کی ویڈیوزمنظر عام پر آچکی ہیں ۔ عدالت کی طرف سے شفاف انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کی نشاندہی کے بعد اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ووٹ کو خفیہ رکھنے کے قانون کا اطلاق پولنگ بوتھ تک ہوتا ہے ،ووٹ ڈالنے کے بعد سکریسی کے قانون کا اطلاق ختم ہوجاتا ہے ۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے معاملے میں پاکستان بار کونسل اورسندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے متفرق درخواست دائر کرنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دی ہیں،سیاسی جماعتوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ بارز سیاسی جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہیں،اپنی درخواستوں میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کی اور ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا جو ایک تشویشناک بات ہے بار کونسلز سے درخواست کروں گا کہ اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ سینٹ الیکشن شفاف ہوں،الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے ، کوئی قانون اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا اگر کہیں تضاد آتا ہے تو پارٹی سربراہ کو اسکا علم ہونا چاہیے ۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ بیلٹ کا سیریل نمبر ہونا چاہیے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ سینٹ الیکشن سکیم تبدیل ہونی چاہیے ، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ سینٹ میں ووٹ خریدوفروخت کا سدباب کرے ،اب تو اسکی وڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں،کیا الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے یا جاگ رہا ہے ؟۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ گزشتہ 40 سال میں کرپٹ پریکٹس کی وجہ سے کتنے ممبران نااہل کیے ؟ ایک بھی کرپٹ ممبر کو سزا نہیں دی گئی، قانون موجود ہے اس کے باوجود ای سی پی نے خفیہ بیلٹ کے حوالے سے اپنے ہاتھ باندھ لیے ہیں کہ کچھ نہیں کر سکتے ،کیا ای سی پی خفیہ بیلٹ کو دیکھ سکتے ہیں؟ اگر ووٹ کی خریدوفروخت ہوئی ہے تو اسکا تعین کیسے کریں گے جب تک بیلٹ نہ دیکھ لیں، اگر عام انتخابات میں انگوٹھے کی تصدیق ہو سکتی ہے تو یہی سینٹ میں کیوں لاگو نہیں ہو سکتا؟۔چیف جسٹس نے ایک موقع پر وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ آپ اس بات کا تعین کیسے کرتے ہیں کہ آپکی آئین میں دی گئی ذمہ داری پوری ہو رہی ہے ۔جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ کرپٹ پریکٹس کے سدباب کا الیکشن ایکٹ کے تحت ایک میکانزم دیا گیا ہے ،کمیشن خفیہ بیلٹ نہیں دیکھ سکتا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر عام انتخابات خفیہ ہوتے ہیں اور بعد میں بیلٹ دیکھا جا سکتا ہے تو یہی طریقہ سینیٹ الیکشن میں اپلائی کیوں نہیں ہوتا؟ ۔چیف جسٹس نے انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کی اجازت نہیں اور اس کو روکنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے ۔عدالت نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کمیشن کو طلب کرنے جبکہ سنیٹ الیکشن سکیم پیش کرنے کا آرڈر جاری کیا اور سماعت ملتوی کردی۔اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ ووٹ کی سکریسی پولنگ بوتھ تک ہے اور سپریم کورٹ نے مسعود لونی کیس میں یہ طے کیا ہوا ہے جس پر عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے کو مذکورہ عدالتی فیصلہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔