ایک تصویر کبھی پوری کتاب پر بھاری ہو سکتی ہے، ایسی ہی ایک تصویر گزشتہ دنوں قومی اخبارات میں شائع ہوئی تصویر باپ اور بیٹے کی ہے، جو ایک بنج پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہیں‘ بیٹے کے ہاتھ ہتھکڑی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ باپ ‘بیٹا ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھ ڈالے ہیں‘ باپ کی آنکھوں میں محبت اور چہرے پر فکر مندی اور تشویش لکھی ہے، جبکہ بیٹے کا اطمینان اور بے نیازی اس کے عزم اور حوصلے پر دلیل ہے، جو اس کے نصب العین کی سچائی اور اسے پا لینے کے یقین سے حاصل ہوتی ہے‘ باپ کی تشویش اور فکر مندی کا تعلق بیٹے کے مقدمات اور جیل کی عقوبت سے نہیں بلکہ قید کرنے والوں کی گری ہوئی ذہنیت ہے، جو انہوں نے شہباز گل اور اعظم سواتی کے خلاف روا رکھی۔حفیظ اللہ ایسا آدمی نہیں ہے، جو اس طرح کے طرز عمل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکے بلکہ وہ کھلی جنگ کا طبل بجا دے گا‘ حسان نیازی نے اپنے انٹرویو میں کہا ’’ابا نے گیارہ روز کی جیل میرے ساتھ گزاری‘‘ حفیظ اللہ نے بیٹے کے نقش قدم کو اوجھل نہیں ہونے دیا، اس کا تعاقب کیا، اس سرعت اور جانفشانی سے کیا کہ غنیم کے ہاتھ عزت و ناموس تک آ ہی نہیں سکتے تھے‘ وہ گیارہ دنوں چار صوبوں لئے پھرتے رہے، وہ جہاں گئے انہوں نے حفیظ اللہ کو سامنے پایا، وہ بروقت عدالت کے دروازے کو کھٹکھٹاتا رہا اور بیٹے کو صاف بچا کر لے گیا‘ ماں کی محبت اور شفقت‘ باپ کی پشت پناہی بچوں میں جرات اور بہادری‘ صبر اور ثابت قدمی کا باعث بنتی ہے لیکن جن گھرانوں میں یہ جوہر غیر معمولی حد تک پہنچا ہو وہاں آپ عموماً یوں دیکھیں گے کہ باپ محبت و شفقت کرتا نظر آئے گا اور ماں پشت پناہ اور حوصلہ بڑھاتی دکھائی دے گی‘‘ بولی ماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘ صدیق اکبر حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن اسماء صحابیہ رسولؐ کے بیٹے عبداللہ بن زبیرؓ کو اموی فوج نے مکہ مکرمہ میں گھیر لیا خانہ کعبہ پر سنگ باری ہونے لگی‘ ابن زبیر زرہ بکتر پہن کر تلوار لگائے ہاتھ میں نیزہ لئے ،حضرت اسماء یعنی اپنی والدہ محترمہ سے اجازت کے لئے حاضر ہوئے‘ ماں نے پوچھا بیٹا کیا تمہیں اپنے حق پر ہونے اور سچائی کا پورا یقین ہے؟ بیٹے نے کہا ہاں اماں یقینا میں سچائی کے ساتھ حق پر کھڑا ہوں تو اماں بولی پھر جان کی حفاظت کے لئے زرہ بکتر پہننے کی ضرورت کیا ہے‘ بیٹے نے اپنے جسم سے زرہ اتار پھینکی اور شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے میدان میں اترے‘ صف در صف غینم کی فوج کو جیرتے ہوئے نکل گئے‘ لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور ان کے جسم اطہر کو مکہ مکرمہ کے چوراہے میں سولی پر لٹکا دیا گیا تاکہ اہل مکہ کو عبرت ہو کئی روز تک ان کا جسم مبارک یونہی لٹکتا رہا، ایک دن حضرت اسماء بازار میں نکلیں‘ چوراہے میں بیٹے کی لاش لٹکی دیکھی: لاش بیٹے کی جو دیکھی لٹکی ہوئی بے ساختہ منہ سے نکلا یک بار اب بھی منبر سے نہ اترا یہ خطیب اب بھی گھوڑے سے نہ اترا یہ سوار باپ کی محبت اور ماں کی پشت پناہی دراصل جوانوں میں شجاعت و بسالت کی وجہ بنتی، تب وہ صبر و ثابت قدمی سے ہر معرکہ سر کر لیتے ہیں۔حسان نیازی خوش قسمت رہا کہ اسے:حسان نیازی نے رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا’’ابا نے گیارہ دن گویا میرے ساتھ ہی جیل میں گزارے ،ماں نے کیا کہا؟اماں نے کہا تھا دیکھو بیٹا مایوس نہ کرنا‘‘ اور بیٹے نے مایوس نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اسے آزمائش میں سرخرو کیا: تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفظ کا حصہ ہے یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں آج9اپریل 2023ء کی صبح جب یہ کالم لکھ رہا ہوں حفیظ اللہ نیازی والد حسان نیازی سے ہماری دوستی کو پچاس برس ہو چکے یا شاید ایک سال ابھی باقی ہے‘ حفیظ اللہ کی یادداشت زیادہ اچھی ہے، اس سے بعد میں تصدیق کروں گا۔جن دن پنجاب یونیورسٹی میں قدم رکھا، اس دن سے آج تک کوئی وقفہ نہیں آیا، نہ سرد مہری پیدا ہوئی بلکہ یہ دوستی دو خاندانوں کے تعلق میں بدل گئی، ہمارے سب سے بڑے بھائی میاں یٰسین جو لندن میں مقیم تھے، میاں خالد جدہ سعودی عرب میں سب سے چھوٹے بھائی میاں مشتاق جو امریکہ میں جا بسے، سب کے ساتھ بے تکلفی کے باوجود احترام کا رشتہ ہے۔خالد صاحب جدہ میں تھے حفیظ اللہ نیازی بھی برسوں جدہ میں رہے‘ یوں میرے بھائیوں کے ساتھ ان کی دوستی اور بھی بڑھتی چلی گئی‘ مشتاق صاحب سال میں دو مرتبہ پاکستان میں ہوتے ہیں‘ اس طرح تقریباً چار ماہ تک ہم تین بھائیوں کا حفیظ اللہ ‘ شامی صاحب اور سید وقاص (احسان اللہ) لیاقت بلوچ کے ساتھ روز کا ملنا ہوتا ہے۔عدم نے کہا تھا: ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی یہ بے ترتیب یارانے حسین معلوم ہوتے ہیں ویسے تو اردو کا مشہور محاورہ بھی ہے کہ قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا۔لیکن اپنی دوستیوں میں ہم نے تجربے سے سیکھا کہ روز کے آنے جانے سے نہ قدر گھٹتی ہے نہ ہی عدم کا مشاہدہ ہمارے تجربے سے مطابقت رکھتا ہے‘ زندگی میں یہی سمجھا کہ اگر طرفین کی شخصیت مستحکم اور تعلقات خود غرضی پر نہ ہوں تو قدر اور کشش وز فزوں ہوتی ہے۔ کالم کا آغاز حسان نیازی کے لئے تھا‘ حسان کچھ دن پہلے تک حفیظ اللہ کے بغیر ادھورا تھا‘ اب اس کی شخصیت اپنی پہچان الگ سے بھی بنانے کے لئے تیار ہو چکی ہے‘ اس خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت تحریک انصاف کے سیاسی اور نظریاتی رشتے سے کہیں پہلے استوار تھی‘ یہ تحریک انصاف کی پیدائش سے پون صدی پہلے کا واقعہ ہے۔ حسان نیازی کو کب سے جانتا ہوں؟ تب سے جس دن چاچا شاہد اقبال سے سنا کہ حفیظ اللہ نیازی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا‘ یہ اس کے ساتھ تعارف کا پہلا دن تھا‘ بچپن ‘ لڑکپن ‘ جوانی‘ بیرسٹری سے ہوتا ہوا وہ اپنے ماموں عمران خاں کی تحریک انصاف کے ساتھ نظریاتی طور پر وابستہ ہو گیا۔حسان نیازی کی جڑیں تناور ’’بڑ‘‘ سے جڑی ہیں۔بلکہ دو بہت بڑے اور تن آور ’’بڑ‘‘ کے درختوں سے‘ کہتے ہیں بڑ کے سائے میں کوئی دوسرا درخت نہیں اگتا اگرچہ وہ بڑ کا پودا ہی کیوں نہ ہو لیکن حسان نیازی دو تن آور‘ گھنے سایہ دار درختوں کے بیچو و بیچ جڑ پکڑ چکا ہے مضبوط تنا تیزی سے آسمان کی طرف بلند ہونے لگا۔آثار کہتے ہیں وہ خود بھی تن آور بننے کو تیار ہے، وہ صرف گیارہ دنوں کی گرفتاری میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا‘ گرفتاری سے رہائی پا کر اپنے پہلے انٹرویو میں اس نے ایک بڑا آدمی بننے کی منزل پر قدم بڑھا دیے‘اس نے گرفتاری کے دنوں کی بے آرامنی ‘ تشدد اور برے ماحول پر سینہ کوبی کرنے اور ظلم کی داستان سنانے کی بجائے بڑے مستحکم کردار کا ثبوت دیا، اس نے کہا یہ گرفتاری دراصل اسے مشہور کرنے کیلئے عمل میں لائی گئی‘ یوں لگتا ہے یہ سازش دراصل مجھے شہرت دلانے کے لئے تھی جو میں برسوں کی مشقت سے حاصل نہیں کر سکتا تھا وہ سب انہوں نے مجھے دن دنوں میں دلا دیا۔ باپ کی محبت اور گھنا سایہ‘ ماں کی تھپکی عمران خاں جیسے ماموں کے ساتھ نظریاتی استواری اور سیاست میں بھی وفاداری اوائل جوانی کے جوش میں ہوش میں رہنا‘ حواس کو برقرار رکھنا‘ مصیبت میں صبر اور ثابت قدمی کو اس نے سیکھ لیا ہے‘ ڈاکٹروں کے ساتھ وکلاء کے تصادم کے دن اس نے اپنے حواس کو بدحواس نہیں ہونے دیا‘ حالیہ وحشت اور دہشت کے ماحول میں گرفتاری پر اس نے اپنی آن اور وقار کو برقرار رکھا‘ وہ خوفزدہ نہیں تھا‘ پرسکون‘ پراعتماد حالانکہ حفیظ اللہ تمام تر جرات و بہادری‘ عالی ظرفی کے باوجود پریشان نظر آئے‘ شاید وہ حفیظ اللہ کی پریشانی نہیں، باپ کی فکر مندی تھی جس نے حکومت کی بہت ہی گھٹیا اور اخلاق و کردار کا حال ہی میں مشاہدہ کیا ہے‘ جو کچھ شہباز گل اور اعظم سواتی پر گزری اور جو ارشد شریف پر بیتی اور عمران خاں پر قاتلانہ حملے جس میں وہ شدید زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ رہے‘ اس کے بعد بھی انہیں قتل کرنے کے منصوبے بار بار سامنے آ کر ناکام ہوتے رہے لیکن رکے نہیں ان حالات میں حسان نیازی کی گرفتاری ہر ایک کے لئے فکر مندی کا باعث تھی والدین کے لئے کس قدر اضطراب انگیز ہو سکتا تھا وہ ہر صاحب اولاد حساس شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے بہادر ماموں نے خود کو سنبھالے رکھا لیکن اپنی باتوں میں بار بار حسان کے ذکر نے اس کی پریشانی بھی ظاہر کر دی۔اس سب کے باوجود حسان نیازی نوجوان نسل کی مستقبل میں رہمنائی کے لئے تیار ہو چکا ہے!