ان دنوں دینی مدارس کے تعلیمی سال کا اختتام ختم بخاری شریف سے ہورہا ہے ، ختم بخاری سے مراد دورۂ حدیث یعنی درس نظامی کے طلبہ بخاری شریف کی آخری حدیث کسی نامور استاذ و شیخ الحدیث سے پڑھتے ہوئے، سند ِ فراغ حاصل کرتے ہیں، آٹھ سال پہ محیط اس طویل دورانیے کے اختتام پر منعقدہ یہ تقریب دینی مدارس میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ داتاؒ دربار میں قائم عظیم جامعہ ہجویریہ کا سترہواں سالانہ جلسۂ تقسیم اسناد و اعزازات و ختم بخاری شریف گزشتہ روز منعقد ہوا،جہاں فرا غت پانے والے طلبہ ، دربار شریف کی چوکھٹ پر جبہ و عمامہ شریف کے اعزاز سے سرفراز ہوئے اور یوں وہ اس عظیم علمی روایت سے بندھ گئے ،جس کے سرخیل و پیشوا حضرت داتا گنج بخشؒ تھے ، جو کہ خطّے میں مسلم تخلیقی فکر کے امین اور بانی تھے ۔شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق ہزاروی، الجامع الصحیح للبخاری کی اختتامی حدیث پڑھانے کے لیے مسند ِ خاص پہ جلوہ آرا ہوئے ۔ہمارے ہاں دینی مدارس کے طلبہ سیرت طیبہﷺ کے مطالعہ کے حوالے سے ابتدائی طور پر محدثانہ اسلوب کے ہی شناسا اور شناور ہوتے ہیں ، مابعد دیگرمناہج تک رسائی کا موقع میسر آجائے تو بڑی غنیمت۔ ہمارے محدثین کی عمر کا طویل حصہ حدیث ، علم حدیث ، اصول حدیث اور اس کے قواعد کی ترتیب ، تدریس اور ترویج میں صَرف ہوا ۔ محدثین کی اولین اور بنیاد ی ترجیح یہ تھی کہ رسالتمأبﷺ کی ذات ِ اقدس سے جو چیز منسوب ہو ، اس کی ثقافت ، صداقت اور صیانت میںکوئی دوسری رائے نہ ہو ۔ محدثین کو یہ بھی تفوق اور بلندی میسر ہے کہ وہ جو حدیث شریف روایت کرتے ہیں ، اس کی پوری سَند کے ساتھ وہ خود منسلک اور مربوط ہوتے اور راوی ،جس سے وہ حدیث کو روایت کرتے ، اُس سے انہوں نے اس کو خود سنا ہو، بلکہ محض اس کو سنا ہی نہ ہو بلکہ اس سننے کی کیفیت کیا تھی ،وہ اِس سے آگاہ ہو۔محدثین صرف الفاظ ہی نہیں کیفیات بھی بیان کرتے ۔ کوئی محدث جب حدیث بیان کرتا ہے ، تو وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اس کے شیخ جب یہ حدیث بیان کر رہے تھے تو وہ تنہا سننے والا تھا یا اور لوگ بھی اس کے ساتھ شامل تھے اور پھر حدیث شریف، وہ خود پڑھ کرسُنا رہا تھا اور وہ سُن کر تصدیق کر رہے تھے یا وہ پڑھ کرسُنا رہے تھے اور یہ سُن رہا تھا یا کوئی اور پڑھ کرسُنا رہا تھا اور یہ دونوں یعنی حضرت ِ محدث اور وہ سُن رہے تھے ۔ محدثین کی جماعت میں سے اکثر نے سیر ت طیبہ ﷺ پر بھی کام کیا ، جہاں تمام معلومات مکمل اور صحیح ترین سند کے ساتھ درج کرنے کا اہتمام ہوا ۔ سیرت طیبہﷺاور اُسوہ رسولﷺ کی تحفیظ، تحقیق اور تدریس پر توجہ اہلِ بیت اطہار اور حضرات صحابہ کرام ؓکی اوّلین ترجیح تھی اور ابتدائی چند صدیوں ہی اِس پر اِس قدر لکھا گیا کہ یہ شرف و منزلت ہمیں دنیا کی کسی تہذیب اور سوسائٹی میں نظر نہیں آتی ۔ اوائل دور کے سیرت نگاروں میں اگرچہ ابو محمد عبد الملک ابنِ ہشام کو بہت شہر ت میسر آئی ، جو بنیادی طور پر یمن کے رہنے والے اور ایک واسطے سے محمد بن اسحاق کے شاگرد تھے ، عجب اتفاق کہ ابن اسحاق جو کہ فنِ سیرت و مغازی کے امام اور سیرت نگاری میں گراں قدر شہرت کے حامل ہوئے ، لیکن اُن کی کتاب السیرۃ النبویہ لا بنِ اسحاق کی بہ نسبت ، ابنِ ہشام کی کتاب کو بہت زیادہ شہرت میسر آئی ، ابنِ ہشام نے بنیادی طور پر ابنِ اسحاق ہی کی کتاب ، جو اُس نے اپنے استاد زیادہ بن عبد اللہ البکائی سے حاصل کی، کو ایڈٹ کیا اور اس کی کانٹ چھانٹ کر کے، اس کو ایسامصفٰی اور مُجلّٰی بنا یا کہ علمی دنیا اُس پر ٹوٹ پڑی اور اس کی طلب کبھی کم اور چمک ماند نہ پڑھ سکی ۔ ابن ہشام کا کام اتنا معتبر اور غیر معمولی ثابت ہوا کہ سیرت پر جامع ، مستنداور قدیم ترین مسبوط کام صرف اُسی کا معروف رہا ۔ تاہم اُس عہد اوّلین میں سیرت نگاری میں ایک بہت وقیع نام ، امام محمد بن شہاب الزہریؒ (058۔124ھ) کا بھی ہے جو کہ معروف محدث اور معتبر سیر ت نگارتھے، تابعی،مدینہ منورہ کے باسی اور تدوینِ حدیث کے بانیوں میں سرِ فہرست ہیں ، جنہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اکتسابِ علم کیا۔ عروہ بن زبیر بن العوام الاسدی القرشیؓ(22ھ۔93ھ) عہدِاوّل کے سیرت نگاروں میں ابتدائً، انتہائی اہم نام،جو مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں سے تھے ، عروہؓ کے والد حضرت زبیر بن عوامؓ نبی اکرم ﷺکی سگی پھوپھی حضرت صفیہ بنتِ عبد المطلبؓ کے بیٹے، اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے،حضرت اسما بنتِ ابی بکرؓ کے بیٹے اور خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے نواسے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خصوصی تربیت انہیں میسر رہی اور آپؓ کے علوم و معارف کے پاسبان اور علوم سیرت و مغازی کے معلم و ماہرتھے ۔خالہ کے علاوہ آپؓ کی والدہ محترمہ یعنی حضرت اسما بنت ابی بکرؓ ازخود مکی دور کی صحابیہ اور بالخصوص ہجرت کے واقعات کی چشمِ دید اور بہت سے امور میں براہ ِ راست شریک تھیں ۔ ان کے والد زبیر بن العوام ؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے، صفِ اوّل کے جانثار اور سپاہِ اسلام کے شیر دل مجاہد ، اس کے علاوہ حضرت علی المرتضیٰؓ، ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباسؓ، سعید بن زیدؓ، زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن عمرؓ جیسی شخصیات اکتسابِ فیض کے لیے انہیں میسر ہوئیں۔آپؓ نے علم سیرت اور مغازی کے بارے میں اپنے دستِ خاص سے جو مجموعہ مرتب کیا ، اس کی تیاری میں خلفا راشدین نے بھی دلچسپی لی ، حضرت عروہ بن زبیرؓ اپنے مرتب کردہ اِس مجموعہ سیرت کی تدریس فرماتے ، لوگ آپؓ کے حلقہ درس میں شامل ہوتے ، آپؓ سے اِس تحریری مجموعہ کے حصول کی فرمائش کرتے ۔ آپؓ سے اِس مجموعہ سے بعد کے سیرت نگاروں نے خوب استفادہ کیا اور ابن سعد اور واقدی سمیت دیگر فیض یاب ہوئے ۔ اس ضمن میں حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے صاحبزادے حضرت ابان بن عثمانؓ کا نام بھی ،اِس اوائل دور کی سیرت نگاری کے حوالے سے معتبر ہے۔ یہ بھی فقہائے مدینہ میں سے تھے ، تدوین مغازی و سیرت میں اِن کی خدمات بڑی کلیدی نوعیت کی ہیں،عبد الملک بن مروان کے عہد میں مدینہ کے گورنر تھے ، جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ تھے ۔ مدینہ منورہ میں آپؓ کا حلقہ درس تھا ، آپؓ، اپنے مجموعہمغازی ابان بن عثمان کی تدریس بھی فرماتے اور اِملا بھی۔اِس ضمن میں تیسری اہم شخصیت ابو عبد اللہ وہب بن منبہؓ،کتبِ قدیمہ کے ماہر ، اسرائیلیات کے عالم اور تاریخ سے خصوصی شغف کے حامل ، اصلاً عجمی النسل اور ایرانی تھے ، آپؓ کے والد اسلام کی نعمت سے سرفراز ہوئے ، آپؓ کے بھائی ابو عقبہ ہمام بن منبہؓ، بڑے ثقہ تابعی اور حدیثِ رسولﷺکے اوّلین جامعین میں سے تھے ، یہ دونوں بھائی حضرت ابو ہریرہؓ کے معروف شاگرد تھے ۔ اس کے ساتھ تدوینِ سیرت میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی شخصیت شرحبیل بن سعد الخطمی المدنیؒ،جو کہ انصار کے ایک آزاد کردہ غلام تھے ۔