مکرمی ! زراعت کے شعبے سے وابستہ کثیر آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب ہو ،سندھ ،بلوچستان یا خیبر پختونخواہ ہو جس میں ماضی میں اراضی ریکارڈ اور ملکیت کی منتقلی کیلئے عرصہ دراز سے صبر آزما مینئول نظام چلا آ رہا ہے جسے روز بروز بڑھتی آبادی ، فرسودہ نظام کی پیچیدگیوں ، جائیداد کے وراثتی جھگڑوں اور پٹواری کلچر کی عوام دشمن کرپشن کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا رہا-آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی زمین کی نسل در نسل تقسیم کے نتیجے میں مالکان اراضی کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں لینڈ ریکارڈ آج تک وہ ہی بوسیدہ نظام ہے جہاں آج بھی پٹواری مافیا بے لگام ہے اگر روزانہ اخبارات کا مشاہدہ کیا جائے تو اس نظام میں خامیوں کے باعث اس صوبے کے دور دراز علاقوں میں جہاں نسل در نسل صدیوں سے رہنے والے وراثی زمینوں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔طاقتور فریق دوسرے کمزور فریق کی جائیداد کو بزور بازو اوور رشوت کا بازار گرم کرتے ہوئے اپنے نام کروالیتا ہے تو کہیں زمین کے شاملات کے معاملات میں رشوت کا سہارا لیتے ہوئے طاقتور فریق کو ناجائز فائدہ دے دیا جاتا ہے اسی طرح گرداوری سسٹم کا بوسیدہ طریقہ جس میں بجائے جا کے موقع پر کاشتکار اور فصل کا تعین کیا جائے بند کمروں میں ہی یہ امور سر انجام دے دیئے جاتے ہیں جبکہ ایک اور اہم اور بوسیدہ طریقہ خسرہ جات کا ہے جہاں پٹواری رقبہ کہیں کا مالک کے نام کرتا ہے اور رقم کسی اور جگہ کی وصول کر لی جاتی ہے ۔بوسیدہ نظام میں رائج یہ تمام طریقے انتہائی پیچدہ ہیں۔ (محبوب اعوان)