مکرمی !فلسطینی گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیلی دہشت گردی کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق نہتے فلسطینیوں نے طوفان الاقصیٰ کی صورت میں درعمل دیا۔ اسرائیل نے ظلم کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے جوابی حملہ میں آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے کتنے ہی معصوم فلسطینی شہریوں کو بے دخل کیا اور غزہ جو دنیا کی سب سے بڑی جیل کی مانند ہے جہاں کوئی امداد نہیں جا سکتی اس سب میں امریکہ اور اس کے حواری کھلم کھلا اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن اتنی کم سہولیات کے باوجود حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا صرف اللہ کے بھروسے پر وہ اتنی شہا دتیں ہونے کے باوجود پیچھے نہیں ہٹ رہے یہ اْن کا جذبہ ایمانی ہے وہ اللہ پر بھروسہ کر کے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں پھول جیسے بچوں اور عورتوں کی لاشیں دیکھ کر ان کی جدوجہد کم نہیں ہو رہی۔کمزوری کے باوجود وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح جمے ہوئے ہیں ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی مدد قریب ہے اور انشاء اللہ فتحان کیہوگی۔جہاں تک بات دوسرے مسلم ممالک کا تعلق ہے تو چند ایک مسلم ممالک کو چھوڑ کر وہ دو ریاستوں کا چرچا کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کوئی دو ریاستیں نہیں بلکہ فلسطین ایک ہی ریاست ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ عرب لیگ بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہی۔ آج اگر اسلامی ممالک اتحاد کر لیں اور فلسطینیوں کی مدد کیلئے کھڑے ہو تو کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب مل کر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو معاشی طور پر اسرائیل کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ (فوزیہ عباس ، کراچی)