مکان کے باہر خاصے طالبان جمع تھے۔ میں انھیں اندھیرے میں سایوں کے مانند دیکھ سکی۔ یہ جاننا مشکل تھا کہ فضل اللہ کہاں کھڑا تھا۔ پھر اس وقت میرے رگ و پے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب میں نے ایک سائے کو میگا فون اپنے منہ سے لگاتے دیکھا۔ میگا فون کا بھی سایہ ہی نظر آیا تھا۔ ’’تمھارا فون انگیج کیوں ہے کاف مین؟‘‘ فضل اللہ کی آواز گونجی۔ اب اس میں شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہی کہ وہ سایہ فضل اللہ کا تھا۔ اس کی آواز پھر سنائی دی۔’’ کون، کس سے بات کررہا ہے؟‘‘فضل اللہ کے لہجے میں فکر مندی کی جھلک تھی۔ میں نے بے اختیار اپنے شانے سے گن اتار کر اس کی نال چوکھٹ پر رکھی اور فضل اللہ کا نشانہ لیا لیکن اسی وقت مجھے خیال آیا کہ یہاں سے بچ نکلنے کی کوئی تدبیر بانو کے دماغ میں یقیناً تھی۔ اگر میں فضل اللہ پر گولی چلا دیتی تو ان کی منصوبہ بندی میں کوئی رخنہ پڑ سکتا تھا۔ انھوں نے مجھ سے یہ نہیں کہا تھا کہ فضل اللہ نظر آئے تو اسے گولی مار دوں۔میں کھڑکی بند کرکے تیزی سے واپس ہوئی۔ میں ان سے اجازت لینا چاہتی تھی کہ کیا فضل اللہ کو گولی مار دوں۔ جب میں وہاں پہنچی تو کاف مین موبائل بانو کو دے رہا تھا۔ اس نے اپنی بات ختم کرلی تھی۔ اس نے کہا۔’’ جلد ہی ملا کو ایک کال ملے گی۔‘‘ ’’نہیں۔ ‘‘بانو نے موبائل نہیں لیا۔ ’’فضل اللہ کا نمبر ملا کر دو۔‘‘ ’’فضل اللہ نظر آگیا ہے مجھے! ‘‘میں نے بانو کو بتایا۔ ’’میگا فون کی وجہ سے پہچان لیا ورنہ سائے تو سب ایک سے ہوتے ہیں۔‘‘ ’’گڈ! ‘‘بانو نے کہا۔’’ اسے میگا فون پر ہی الجھانا پڑے گا۔‘‘ کاف مین نے فضل اللہ کا نمبر ملا کر موبائل بانو کو دیا۔ دوسری طرف سے فوراً کال ریسو کی گئی۔ ’’نمبر مصروف کیوں تھا؟ ‘‘فضل اللہ کے لہجے میں سختی تھی۔ ’’مصروف تو نہیں تھا۔ غلط نمبر ملایا ہوگا تم نے!‘‘ ’’بکواس۔ ‘‘فضل اللہ غرایا۔ ’’بکواس؟ کیا مطلب؟ ‘‘بانو نے کہتے ہوئے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا۔ میرے اندازے کے مطابق بانو بات کو طول دے کر کچھ وقت گزارنا چاہتی تھیں۔ اس سے پہلے کہ فضل اللہ کچھ کہتا، اس کی طرف سے موبائل ہی کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی اب فضل اللہ نے کہا۔’’ میں ذرا دیر بعد فون کروں گا۔‘‘ پھر رابطہ منقطع کردیا گیا۔ بانو نے فضل اللہ سے بات کرتے ہوئے موبائل کا اسپیکر آن کردیا تھا۔ ’’دو موبائل ہیں اس کے پاس۔‘‘ کاف مین بولا۔’’ دونوں ہی موبائل میں دو دو سمیں ہیں۔‘‘ ’’تم نے خود کو محفوظ کرلیا۔‘‘ بانو مسکرائیں۔ ان اعصاب شکن حالات میں وہی مسکرا سکتی تھیں۔ میر اتو سارا جسم تنائو کا شکار ہوگیا تھا۔ یہی حالت سونیا کی بھی ہوگی۔ وہ کھڑے کھڑے بار بار پہلو بدل رہی تھی۔ بانو کی بات سن کر کاف مین ان کا منہ تکنے لگا۔ ’’ ہیبرومیرے لیے کوئی اجنبی زبان نہیں۔ ‘‘بانو نے انگریزی ہی میں کہا تاکہ میں اور سونیا بھی سمجھ سکیں۔ ’’میں مجبور تھا مدد لینے کے لیے۔ ‘‘کاف مین نے کہا۔’’ ہلاک ہونے سے بہتر ہے کہ میں تمہارے ملک کا قیدی بنوں۔ تم نے فضل اللہ سے کہا ہے کہ اس علاقے سے نکلنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ ’’خاصے سمجھ دار ہو۔ ‘‘بانو نے پھر گھڑی دیکھی۔ میں بولی۔’’ آپ بار بار گھڑی کیوں دیکھ رہی ہیں؟‘‘ ’’ہمیں یہاں سے ایک خاص وقت پر نکلنا ہے۔‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا لیکن انھوں نے مزید کچھ نہیں کہا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ’’ خاص وقت ‘‘سے ان کی کیا مراد تھی۔ دماغ پر خاصا زور دینے کے باوجود مجھے ادراک نہ ہوسکا کہ وہ اس صورت حال کو کس نہج پر آتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں جسے انھوں نے ’’خاص وقت‘‘ کہا ہے۔ بانو نے کاف مین کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے موساد کی کسی اہم شخصیت کو فون کیا تھا نا؟‘‘ کاف مین نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلادیا۔ بانو بولیں۔ ’’موساد کا چیف ہے وہ؟‘‘ ’’یہ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ کاف مین نے جواب دیا۔ ’’اور تمھیں یہ خیال بھی ہے کہ موساد کے ایجنٹ تمھیں ہمارے ملک کی جیل سے نکال لے جائیں گے؟‘‘ اس بار کاف مین نے سر ہلایا نہ زبان سے کچھ کہا۔ بانو کا منہ تکنے کے بعد اس نے نظریں جھکالیں۔ میرے دماغ میں اس وقت یہ خیال تھا کہ بانو یہ باتیں محض وقت گزاری کے لیے کررہی تھیں۔ موبائل کی گھنٹی بجی۔ وہ فضل اللہ ہی کی کال ہوسکتی تھی۔ بانو نے موبائل کان سے لگایا۔’’ ہاں فضل اللہ! کیا فیصلہ ہے تمھارا؟اور تمھیں یہ فون کس نے کیا تھا ابھی؟‘‘ ’’تمھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘فضل اللہ کی آواز میں جھنجلاہٹ تھی۔’’ تم لوگ دفع ہوجائو۔ لے جائو اپنے ساتھ کاف مین کو!‘‘ ’’عقل مندانہ فیصلہ کیا ہے تم نے! ہمیں باہر نکلنے سے پہلے کچھ تیاری کرنی ہے۔ ہم پانچ منٹ بعد نکلیں گے۔ ‘‘بانو نے پھر گھڑی دیکھی۔ ’’کیا تیاری کرنی ہے؟‘‘ ’’تمھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘بانو نے فضل اللہ ہی کا جملہ دہرادیا، پھر رابطہ منقطع کرکے مجھ سے کہا۔’’ اب تم جائو کھڑکی پر! اپنی خواہش پوری کرلو۔‘‘ بانو جانتی تھیں کہ فضل اللہ کو ہلاک کرنا میری شدید خواہش تھی۔ میں نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔’’ وہ میگا فون کا استعمال کرے، تبھی میں سمجھ سکوں گی کہ وہ ہی فضل اللہ ہے۔‘‘ ’’وہ میگا فون پر بولے گا۔ ‘‘بانو نے کہا۔’’ تم جائو۔ بس ایک دھماکے کا انتظار کرنا۔ تم گھبرانہ جانا وہ دھماکا سن کر، اس لیے پہلے سے بتادیا۔‘‘ ’’دھماکا‘‘؟ میرا دماغ الجھا۔ ’’بس جائو اور دھماکے کا انتظار کرو۔‘‘ میں الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ لیبارٹری میں پہنچی اور کھڑکی ذرا سی کھول کر باہر دیکھا۔ سب طالبان سایوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ مجھے دو باتوں کا انتظار کرنا تھا۔ اس وقت کا جب کوئی سایہ میگا فون اٹھاتا اور ایک دھماکے کا جس کے بارے میں، میںکچھ نہیں جانتی تھی۔ پانچ منٹ گزر گئے لیکن میںنے کسی کو میگا فون اٹھاتے نہیں دیکھا۔ جب چھٹا منٹ بھی گزر گیا تو میں نے ایک سائے کو میگا فون اٹھاتے دیکھا اور فضل اللہ کی آواز سنائی دی۔ ’’پانچ منٹ سے زیادہ گزر گئے ہیں اور اب پھر تمہارا فون انگیج مل رہا ہے۔‘‘ میں سمجھ گئی کہ بانو نے شاید ’’زیرو‘‘ ہی ڈائل کرکے موبائل انگیج کردیا ہوگا تاکہ فضل اللہ کو میگا فون استعمال کرنا پڑے۔ میں نے گن کھڑکی کی چوکھٹ پر رکھ کر اس کا نشانہ لے لیا۔ اس کے بعد مجھے دھماکے کا انتظار تھا۔ ’’فون کرو مجھے! ‘‘فضل اللہ میگا فون پر پھر گرجا۔ اسی وقت ایک خوفناک دھماکا ہوا اور بے اختیار میری انگلی نے گن کا ٹریگر دبا دیا۔ دھماکا کہاں ہوا تھا؟ اس کی نوعیت کیا تھی؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں!