میں نے موبائل کان سے لگالیا تھا لیکن کچھ بولی نہیں تھی ۔ میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ ’’ بکو!‘‘ میں نے غصے سے کہا ۔ ’’ تم کون ہو؟‘‘ اس نے پوچھا ۔’’ اس فون پر جس نے بات کی تھی ‘ وہ کہاں ہے ؟‘‘ ’’ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ خودکش حملے کرکے تم نے اسے مروا دیا تویہ تمہاری خام خیالی ہے ۔ یہ فون تم نے تصدیق کے لئے کیا ہے ۔ ‘‘ تم اس کے ساتھ تھیں ۔ تم بھی بچ گئی ہو‘ لیکن بچو گی نہیں !۔۔انتظار کرو اپنی موت کا ۔‘‘ پھراس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی دوسری طرف سے رابطہ منقطع ہوگیا ۔جب میری زبان پر ’’ خود کش حملہ‘‘ کے الفاظ آئے تھے تو مسٹر داراب چونک کر میری طرف دیکھنے لگے تھے ۔ میں نے موبائل بند کیا ہی تھا کہ وہ بولے ۔ ’’ کیا فضل اللہ کا فون تھا ؟‘‘ ’’ جی‘‘ ’’ تو وہ بچ گیا !فرار ہوگیا وہاں سے ۔‘‘ میں نے موبائل ان کی طرف بڑھایا ۔ یہ کاف مین کا فون ہے ۔ اس سے بھی کچھ اہم معلومات حاصل ہوسکتی ہیں ۔ یہ محکمے کے ماہرین کے حوالے کردیجئے !‘‘ ’’ جب تک سونیا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوجاتا ‘ مجھے یہیں رکنا ہے ۔‘‘مسٹر داراب نے کہا اور اپنے موبائل پر کسی سے رابطہ کرکے اس سے ہاسپٹل آنے کے لئے کہا ۔ ’’ فضل اللہ فرار ہو کر افغانستان ہی گیا ہوگا ۔ ‘‘ میں سوچتی ہوئی بولی ۔ پھر میں نے مسٹر داراب سے کہا ۔ ’’ وہاں میں نے اس پر گولی چلائی تھی لیکن کم بخت بچ گیا ۔ اب اس نے یہی جاننے کے لئے فون کیا تھا کہ خود کش حملے کے نتیجے میں اس کی خوا ہش پوری ہوئی یا نہیں ۔ مجھے اس پر حیرت ہے کہ اسے اس ہاسٹل کے بارے میں علم کیسے ہوا !۔۔۔ یعنی یہ کہ ہم یہاں آئیں گے ۔‘‘ ’’ میں اس بارے میں قیاس کرسکتا ہوں ۔‘‘ مسٹر داراب نے کہا ۔’’ وہاں سارے طالبان کو تو ختم نہیں کیا جاسکا تھا ۔غالباً کسی چھپے ہوئے طالب نے تم لوگوں کو ہیلی کوپٹر میں جاتے دیکھ لیا ہوگا ۔ اس کی اطلاع فضل اللہ کو دی گئی ہوگی تو اس نے سمجھ لیا ہوگا کہ تم لوگ چکلالہ کے ہوائی اڈے پر اترو گے۔ اس نے پنڈی میں اپنے کسی آدمی کو ہدایت کی ہوگی کہ وہ چکلالہ ائیر پورٹ پہنچے اور تم لوگوں کی نگرانی کرے ۔ اسے یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ تینوں میں سے ایک زخمی ہے چنانچہ اس ایمبولینس کی نگرانی کرواکے اسے معلوم ہوگیا ہوگا کہ تم تینوں اس ہاسپٹل میں پہنچے ہو ۔ اس ساری کارروائی سے قبل اس نے ایک خود کش حملہ آور کو بھی تیار رکھا ہوگا ۔ پنڈی میں ایک مولوی ہے جو ان دہشت گردوں کا سہولت کار ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اسی نے خود کش بم بار تیار کیا ہو ۔ تم لوگ ہاسپٹل پہنچے تو اس خود کش بم بار کو ہدایت کردی گئی کہ اسے کہاں حملہ کرنا ہے ۔ ‘‘ مسٹر داراب نے خاصی وضاحت سے اپنے قیاس کا اظہار کیا تھا ۔ ’’ ہوں ۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ ’’ آپ کا قیاس درست ہی معلوم ہوتا ہے ۔‘‘ ’’ وہ خصوصا‘‘ اب تمہارا اور بانو کا دشمن ہوجائے گا ۔ اپنا خیال رکھنا ۔‘‘ ’’ میں ان باتوں سے نہیں ڈرتی ۔‘‘ ’’ مجھے اندازہ ہے ۔‘‘ مسٹر داراب نے کہا ‘ پھر بولے۔’’ یہ بانو بہت غیر معمولی عورت ہیں ۔ آج یہ راز کھلا کہ وہ سرجن بھی ہیں ۔ اور وہاں !....تم نے ان سے ذکر کیا تھا کہ پچاس سال پہلے بھی انہی کی شکل و صورت کی ایک عورت کو دیکھا جاچکا ہے ۔ ‘‘ ’’ حالات ایسے رہے ہیں کہ اس قسم کی باتوں کا موقع ہی نہیں ملا ۔ ‘‘ ’’ ہوں ۔‘‘ مسٹر داراب نے سر ہلایا ‘ پھر کہا ۔ ’’ جنرل شناور مجھے برابر فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھتے رہے ہیں اور میں انھیں بتاتا رہاں ہوں کہ تم اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہو اور خیریت سے ہو ۔ اب تم انھیں فون کرلو۔‘‘ ’’ نہیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ میں اب گھر جا کر ہی ڈیڈی سے ملوں گی ۔والدہ اور بہنوں سے بھی !۔۔ وہ سب بہت پریشان ہوں گے ۔ ڈیڈی تو فوجی ذہن رکھتے ہیں ‘ ان کی بات اور ہے ۔ ایس آئی ایس میں میرا شامل ہونا ان کے لئے کسی پریشانی کا سبب نہیں بنا تھا ۔ ‘‘ ’’ وہ تمہاری اس کام یابی سے بہت خوش ہوں گے ۔ ‘‘ ’’ فطری بات ہے ۔‘‘ اس وقت ایس آئی ایس کا وہ آدمی آگیا جسے مسٹر داراب نے فون کرکے بلایا تھا ۔ مسٹر داراب نے اسے کاف مین کا موبائل دیتے ہوئے کچھ ہدایات دیں ۔ وہ فون لے کر چلا گیا ۔ میں نے بانو کو آتے دیکھا تو بے تابانہ کھڑی ہوگئی ۔ ’’ آپریشن ہوگیا سونیا کا؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا ۔ ’’ نہیں ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ آپریشن تو وہ لوگ کررہے ہیں ۔ میں نے بس اتنا کیا ہے کہ جو چیز سونیا کے دماغ کی طرف جارہی تھی ‘ اسے روک دیا ہے ۔‘‘ مسٹر داراب بولے ۔ ’’ آج بہت تعجب ہوا کہ آپ سرجن بھی ہیں ‘ اور غالباً بہت اچھی سرجن ۔‘‘ ’’ بس ہوں ۔‘‘ بانو نے سرسری انداز میں کہا ۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں ۔ ’’ تم اپنے گھر ہو آئو۔اب سونیا کا آپریشن مشکل نہیں ہے ۔ اس کی زندگی خطرے سے باہر سمجھو۔‘‘ ’’ ابھی فضل اللہ کا فون آیا تھا ۔‘‘ بانو چونکیں ۔ میں نے انھیں سب کچھ بتادیا ۔ وہ استہزائیہ انداز میں دھیرے سے ہنسیں ۔ پھر سنجیدہ ہوکر بولیں ۔ ’’ ہاسپٹل سے اپنے گھر جاتے وقت صدف کو بکتر بند گاڑی میں ہونا چاہئے ۔‘‘ ’’ میں بھی یہی سوچ رہا تھا ۔ بندوبست کرتا ہوں اس کا ۔ ‘‘ مسٹر داراب نے کہا اور موبائل، پر کسی سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے بانو سے کہا ۔ ’’ میں سونیا کی طرف سے بالکل مطمئن ہو کر ہی جائوں گی ۔ ‘‘ اور میں اس وقت تک رکی جب سونیا کا آپریشن کرنے والے نے وہاں آکر بانو سے کہا ۔ ’’ سرجن صاحبہ! آپ نے تو کمال کردیا ۔ ‘‘ ’’ آپریشن کیسا رہا ؟‘‘ ’’ مکمل کام یاب !..... وہ اب آئی سی یو میں ہیں ۔ ابھی انھیں ہوش نہیں آیا ہے ، لیکن مجھے یقین ہے کہ تین گھنٹے یا چار گھنٹے کے بعدانھیں روم میں پہنچادیا جائے گا ۔چند دن بعد ہی وہ اپنے گھر بھی جاسکیں گی۔‘‘ ’’میں اسے آئی سی یو میں دیکھنا چاہوں گی۔‘‘بانو کھڑی ہو گئیں۔ ’’ ضرور۔‘‘ بانو چلی گئیں ۔ ’’ بکتر بند گاڑی کا بندوبست ہوگیا ہے کیپٹن!‘‘ مسٹر داراب نے کہا ۔ ’’ بانو نے بالکل صحیح مشورہ دیا ۔ اس وقت باہر کوئی آپ کی تاک میں ہوسکتا ہے ۔‘‘ کیا ہاسپٹل کے باہر کوئی تاک میں بیٹھا تھا ؟ کل کے روزنامہ92میں پڑھیے!