آج ہر زبان پر یہی لفظ ہے کہ سیاسی بحران کیسے حل ہو گا؟ پی ٹی آئی کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی شراکت اقتدار کے فارمولے پر اتفاق کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اس تجویز پر غور ہو رہا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب تین سال ایک جماعت کے پاس اور دو سال دوسری جماعت کے پاس ہو، (ن) لیگ کی خواہش ہے کہ قومی اسمبلی میں وہ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے لہٰذا پہلے تین سال اسے ملنے چاہئیں اور دو سال پیپلز پارٹی حکومت کرے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی طرف سے اپنی قیادت پر دبائو ہے کہ وہ (ن) لیگ کے ساتھ شراکت اقتدار کے فارمولے کو مسترد کر دے اور اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھ جائے، سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ اپنی جگہ مگر ہو گا وہی جو مقتدر چاہیں گے۔ سیاسی بحران نیا نہیں ہے، موجودہ بحران بھی دو ڈھائی سال سے چل رہا ہے، تحریک انصاف جب برسراقتدار تھی تو حکومت ختم ہونے سے پہلے اندر خانہ جنرل باجوہ سے اختلاف چل رہے تھے، آخر تحریک انصاف کی چھٹی کا وقت آیا، عمران خان نے حکومت بچانے کی آخر وقت تک کوشش کی وہ مزاحمت بھی کرتے رہے مگر پی ڈی ایم نے کمپنی کی مدد سے عمران خان کی حکومت کو رخصت کر دیا۔ جب پی ڈی ایم کی صورت میں وہی چہرے ایک بار پھر برسراقتدار آئے تو لوگ عمران خان کی ساڑھے تین سال کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھول کر ایک بار پھر اس سے وابستہ ہو گئے، گویا ’’کبے کو لات پڑ گئی‘‘ اور عمران خان کی ایک بار پھر بلے بلے ہو گئی، اس سلسلے میں سوشل میڈیا نے وہ کام کیا کہ پرانی جماعتوں اور پرانے سیاستدانوں کو اس کا ادراک بھی نہ ہو سکا کہ معاملہ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکا ہے، وہ سمجھے تھے کہ پرانے حربوں سے ہم نے عمران خان کو ایک بار پھر مکمل طور پر آئوٹ کر دیں گے مگر یہ سب اُن کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا عمران خان کی حکومت ناکام تھی، کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا تھا، سرائیکی وسیب سے عمران خان نے سو دنوں میں صوبہ بنانے کا تحریری وعدہ کیامگر صوبہ کمیٹی بھی نہ بنائی، جس سے وسیب کے لوگ آج تک سخت ناراض ہیں اور میرے سمیت سب اُس کے ناقد ہیں مگر آج کے الیکشن کے بارے میں جب تجزیے کی بات آئے گی تو غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہو گا کہ موجودہ الیکشن متنازعہ ترین الیکشن ہے کہ ایک جماعت سے اُس کا نشان بھی چھین لیا جائے ، اُس کے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ کی جائے اور اُن کے حامیوں پر تشدد ہو اور الیکشن لڑنے والے تشدد کے خوف سے روپوش ہو جائیں، انتخابی مہم چلانے کا موقع بھی نہ ملے، نہ کوئی اشتہار، نہ پینا فلیکس، نہ کنویسنگ، پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ بھی خوف کے مارے پورے نہ بیٹھ سکیں، ووٹر کو بھی آزادانہ طور پر حق رائے دہی کیلئے مشکلات ہوں، ان تمام حالات کے باوجود ایک بھونچال آجائے اور لوگ دیوانہ وار اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تو پھر اس کا نتیجہ مان لینا چاہئے اور (ن) لیگ از خود اس کا اعتراف کر لے تو یہ اُس کے مستقبل کی سیاست کیلئے نیک شگون ہو گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنی ناکامی پر جماعت اسلامی کے امارت سے استعفیٰ دیا ہے اسی طرح استحکام پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک نے اپنی ناکامی پر سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس کو مینڈیٹ ملا ہے، اُسے ملنا چاہئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے دھاندلی کے الزامات پر سندھ اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی ہے، اُن کے اس اعلان نے سب کو حیران کر دیا کہ مجھے دھاندلی سے جتوایا گیا، میں یہ سیٹ جس کا حق ہے اُس کو دینا چاہتا ہوں اور خیرات کے طور پر یہ سیٹ نہیں لینا چاہتا، جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا نے انتخابات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کی نشستیں چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایمل ولی خان اور بہت سے دوسروں نے الیکشن 2024 کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ تمام باتیں اس بات کی غماز ہیں کہ ان الزامات کو آسان نہ لیا جائے۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول جماعت دھاندلی کے الزامات پر ہٹائی گئی حالانکہ اس وقت ایک سیٹ کا معاملہ تھا، 2013ء کے الیکشن سے دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا ، عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگائے تھے ، معاملات الیکشن ٹربیونل کے پاس گئے، بہت سے حلقے کھلتے رہے پھر 2018ء میں عمران خان کو لایا گیا تو اسی طرح کے الزامات (ن) لیگ کی طرف سے عمران خان پر عائد ہوئے ، اب نیا پنڈورا بکس کھلا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ عذاب کب تک؟ موجودہ الیکشن پر حکومت نے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ پچاس ارب خرچ کئے اسی طرح سیاسی جماعتوں اور اُن کے امیدواروں نے کھربوں کے اخراجات کر ڈالے، دیکھنا یہ ہے کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ کیا پہلے کی طرح معاملات الیکشن ٹربیونل کے پاس جائیں گے؟ پھر سے حلقے کھولے جائیں گے؟ یا الیکشن دوبارہ ہوں گے؟ گو کہ ابھی تک سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کی طرف سے نئے الیکشن کا مطالبہ سامنے نہیں آیا مگر اسے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے گی اور میاں صاحبان آرام سے وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مزے لوٹیں گے۔ یہ تاریخ کا بد ترین بحران ہے، سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو اسے حل کرنا ہو گا اور حل کی یہی ایک صورت ہے کہ اصل مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ 1970ء میں مینڈیٹ تسلیم نہ ہونے کے باعث مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا۔ پیپلز پارٹی کے دونوں ادوار میں (ن) کی صوبائی حکومت مرکز سے لڑتی رہی ہے، اب اگر خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت بنتی ہے تو اب مرکز کے علاوہ خیبرپختونخواہ، پنجاب دو صوبے محاذ آرائی کی صورت میں ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے جو کہ ملک و قوم کیلئے خطرناک بات ہو گی۔