اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے نیب کی غیرجا نبداری پر سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا ہے اورکوئی سنگین جرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے ۔3رکنی بینچ نے جمعرات کو جعلی بینک اکائونٹ کیس میں نامزد 2ملزموں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کے مقدمے کی سماعت کے دوران انکی گرفتاری سے متعلق نیب کی پالیسی پر سخت تنقید کی اور ادارے کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا۔ عدالت نے ملزموں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا حکم دیا جبکہ دو ہفتوں میں گرفتاریوں کی پالیسی اور یکساں سلوک سے متعلق اقدامات کی تفصیلات طلب کرلی۔عدالت نے قرار دیا کہ نیب قانون کے مطابق دیگر ملزمان کیخلاف بھی شفافیت کے ساتھ کارروائی کرے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے احتساب کیلئے تحقیقات کرنا نیب کا اختیار ہے لیکن شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے ،جاپان میں احتساب اور قانون کی بالادستی ہمارے لیے ایک مثال ہے ،عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے لیکن قانون کا اطلاق بھی یکساں ہونا چاہیے ۔عدالت عظمیٰ نے امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس میں نئی دستاویزات پیش کرنے پر سوالات اٹھاتے ہوئے سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ حیرانگی کی بات ہے اضافی دستاویزات سپریم کورٹ کی فائل میں کیسے آگئیں۔ عدالت نے دستاویزات کی تصدیق کرانے کی ہدایت کی ۔سپریم کورٹ نے اسلام آباد سے لڑکی کے اغوا میں ملوث ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد کو مغوی رخسانہ کو بازیاب کرکے 6 جنوری کو پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگلی سماعت پر مثبت پیشرفت نہ ہوئی تو آپ کیلئے مشکل ہوجائے گی۔ دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے آئی جی اسلام آباد کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اورعدالت کے رو برو فوری پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔ جس پر آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ وزیر داخلہ کے پولیس لائن دورے کے سبب وھ عدالت بروقت نہیں پہنچ پائے ۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ اور ضلعی عدالتوں میں ججز تقرری کے خلاف کیس کی سماعت کر تے ہوئے درخواست گزار کو ترمیم شدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ججز کی تقرری اور احتساب کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے آئینی دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔