مکرمی ! آج ہم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ 1971 ء میںپاکستان دولخت ہوا مگر اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستانی حکمرانوں نے اس سانحے کو پاکستانی قوم کے شعور میں نقش نہیں ہونے دیا۔جس کے باعث پاکستانی قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہ ہوسکاجو قوموں کو بدلتا اور مستقبل میں سانحات سے بچا تا ہے۔پاکستان کی بنیاد ''نظریہ''تھا۔ تحریکِ پاکستان صرف 7 سال میں کامیاب ہوئی اور قیام کے صرف 24 سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ عموما''اقلیتیں'' اکثریت سے الگ ہوتی ہیں، مگر 1971ء میں ''اکثریت'' اقلیت سے الگ ہوئی۔ 24 سال میں ایسا کیاہواکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑے ہوگئی؟اس سوال کا سیدھاجواب یہ ہے کہ پاکستان کو نظریہ ہی بچا سکتا تھا،مگر پاکستان کے حکمرانوں نے قیام سے دسمبر 1971ء تک ''نظریہ پاکستان'' کی جانب دیکھااور نہ اب تک اس جانب رخ کیا۔کیایہ ایک تاریخی حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ تحریکِ پاکستان میں بنگالی رہنماؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ قراردادِ پاکستان بھی ایک بنگالی مولوی فضل حق نے پیش کی۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 1906ئسے 1947ء تک تو بنگالی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے ''وفادار'' ہوں لیکن 1971ء تک وہ''غدار''بن جائیں! بنگالی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر ان سے کہا گیا کہ Parity یا مساوات کے اصول کے تحت تمہاری آبادی 50 فیصد ہے۔ بنگالیوں نے پاکستان کے اتحاد کی خاطر اسے بھی دل سے قبول کرلیا۔1960ء تک ،56فیصد کا فوج میں وجود ہی نہ تھا۔کہا گیا کہ بنگالیوں کے قد بہت چھوٹے ہیں اور وہ فوج میں شامل ہونے کے قابل نہیں، حالانکہ جدید جنگی ہتھیاروں نے قدوقامت اور جسمانی قوت کو بے معنی بنا دیا۔ 1970ء تک فوج اور بیوروکریسی میں بنگالیوں کی تعداد 10سے15 فیصد تھی۔ (عبد الواحد سجاد)