لاہور (نامہ نگار خصوصی) غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو غلط رنگ دینے کی کوشش ناکام ہوگئی،دی ٹیلی گراف کے نمائندے جوئی ویلن نے حقائق کے برعکس لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ رپورٹ کیااور اپنی سٹوری میں پاکستان میں اقلیتوں کوخطرے میں ظاہرکیاجبکہ لاہور ہائیکورٹ نے اسلام قبول کر کے پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو دارالامان سے آزاد کرنے کاحکم دے دیا۔ جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی نے نقاش طارق کی درخواست پر تحریری حکم جاری کیا، عدالت نے فیصلے میں قرار دیاکہ ماریہ شہباز اپنی خواہش کے مطابق شوہر کے ساتھ یا جہاں چاہے رہ سکتی ہے ، ماریہ شہباز بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے ،ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد کا ماریہ شہبازکو دارالامان بھیجنے کا حکم سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے ، ماریہ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول اور نقاش طارق سے نکاح کیا،اس نے بیان دیا کہ والدہ نگہت شہباز نے میرے اغوائکا جھوٹا مقدمہ درج کرایا،ماریہ نے کمرہ عدالت میں کہا اگر مجھے والدین کے حوالے کیا گیا توقتل کئے جانے کا خدشہ ہے ،وہ پولیس اور عدالتی فورم پر بھی نقاش طارق کو اپنا خاوند تسلیم کر چکی ہے ، لاہور ہائیکورٹ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کسی کا نکاح جعلی یا حقیقی ہونے کی تصدیق کرے ، فیملی عدالت نکاح نامہ کے بوگس یا درست ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے ، محض خدشات کی بنیاد پر کسی عاقل بالغ لڑکی کی آزادی کو صلب نہیں کیا جاسکتا۔