فکری قحط شدید ہو جائے تو مزاحمت کی ندیاں سوکھ جاتی ہیں۔یہ میرا کہا ہوا جملہ پرسوں ایک نشست میں دوست یاد دلا رہا تھا۔میں نے پلاک میں پنجابی کانفرنس کا ایک سیشن ختم ہونے کے بعد سوچا مزاحمت اور ماں بولی کا تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ جو لوگ ماں بولی سے جڑے رہتے ہیں وہ مزاحمت سے دستبردار نہیں ہوتے۔ہماری نسل کا المیہ کوئی ایک ہے ؟ ہمیں معاشی طور پر نچلے طبقات کی سرحد پار کرنا ہوتی ہے۔کئی بار بارڈر پار کرتے ہوئے مر جاتے ہیں۔جو بالائی طبقات کی جنت میں قدم رکھ لیتا ہے وہ اپنے ماں باپ والے طبقات سے کٹ جاتا ہے۔قلم کار کا دکھ یہ ہے کہ وہ بالائی طبقات کے اطلاعاتی نظام سے روزی کماتا ہے لیکن اس کا دل اپنے بزرگوں کے طبقے میں دھڑکتا ہے۔کئی بار ہوا کہ کسی مقتدر شخصیت نے دعوت دی۔جسم وہاں ہوتا ہے لیکن دھیان محل سے باہر رہ جاتا ہے،دھیان مزاحمت ہے،وہ کسی استحصالی کو کب مانتا ہے۔ ملکو نے ایک گیت گایا ہے۔رمضان جانی نے ایک نظم گائی ہے، افکار علوی نے تھوڑا عرصہ پہلے کچھ نظمیں لکھی ہیں۔جو بات تجزیہ کار کہنے کی ہمت نہیں کر تے وہ فنکار اور شاعر کہہ دیتے ہیں۔شاید سماج میں اسی لئے اصلی اور اپنی ماں بولی سے جڑے فنکاروں اور شاعروں کے لئے ناقدری پیدا کر دی گئی ہے۔استحصالی نظام اپنے دشمن تلاش کرتا رہتا ہے۔میڈم نور جہاں اللہ بخشے بہت گنی گائیکہ تھیں۔ساتھ غصہ اور انتقام بھی بھڑک اٹھنے کا ڈر رہتا۔ ایک غریب موسیقار نے گانے کی لائن کو تھوڑا مختلف ادا کرنے کا کہا،ملکہ ترنم نے ایک بار کوشش کی، دوسری بار کوشش کی، تیسری بار بھی جب مطلوبہ لے نہ پکڑ سکیں تو موسیقار نے ایک سخت جملہ کہہ دیا۔ غریب بھول گیا تھا کہ اس کی دانش اور ہنر ملکہ ترنم کے غصے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ملکہ ترنم نے ریڈیو ، ٹی وی اور فلم والوں کو کہہ دیا :جس نے اسے کام دیا وہ نور جہاں کا دشمن تصور ہو گا۔اب اس موسیقی کی ریاست کا مقابلہ کون کرتا۔کام بند ہوا تو موسیقار کا چولہا بجھ گیا۔ لوگوں نے سفارشیں کیں لیکن نور جہاں نرم نہ ہوئیں۔وہ جو ہزاروں لوگوں کے لئے مہربان تھیں اس غریب کے لئے پتھر دل ہو گئیں۔وہ ہنر مند سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کی ناز برداری ہو گی ۔نادان تھا،بھوک کا لقمہ ہوا۔ آسمان اور زمین کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔یہ فاصلہ بتاتا ہے زمین ہری بھری ہو سکتی ہے، اس پر رہا جا سکتا ہے۔اس کی ٹھنڈک پر جلتے پاوں رکھ کر سکون لیا جا سکتا ہے لیکن اس پر رہنے والا آسمان پر نہیں سو سکتا، آسمان پر پاوں نہیں رکھ سکتا ،آسمان کو مٹھی میں نہیں لے سکتا۔پاکستانی قوم چاہتی ہے نیلا آسمان اس کے ہاتھ میں آجائے۔نظام اس کی مرضی سے چلنے لگے۔نظام کہتا ہے قوم اس کی گرفت سے نہ نکلے۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں جو ہمیں یاد نہ ہو۔اپریل دو ہزار بائیس کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی۔میں نے لکھا، دوسرے کئی لوگ بھی کہہ رہے تھے کہ نئے انتخابات کی طرف جانا بہتر ہو گا۔اب تو مولانا فضل الرحمان بھی کہ رہے ہیں کہ وہ حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے۔مسلم لیگ ن نے لیکن اقتدار سے چمٹنا ضروری سمجھا۔پہلے دن ہی کہا کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے لیکن ہم بچائیں گے۔ملک کیا بچانا تھا جو پہلے ہو رہا تھا وہی کیا، نیا قرضہ لے کر پہلے کی قسط ادا کی۔سولہ ماہ کی مدت میں پٹرول، آٹا، دالیں، گوشت، سبزیاں ،کرائے ، گیس، بجلی اورپانی مہنگا ہو گیا ، کئی سو فیصد زیادہ قیمت ہو گئی لیکن نا تنخواہ بڑھی نہ آمدن میں اضافہ ہوا۔زر مبادلہ کے ذخائر ریکارڈ حد تک کم ہوئے۔مہان معاشی ماہر ایک بار پھر وزیر خزانہ بنائے گئے ،بشارت دی گئی کہ ڈالر کے نرخ کم کر دیں گے،جہاز میں بیٹھے تو دو تین روپے ڈالر نیچے آگیا۔پوری حکومتی مشینری ناچنے لگی کہ ڈالر ڈار سے ڈر گیا۔پھر ڈالر سیدھا ہو گیا۔ کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ڈیڑھ سال میں لوگوں نے وہ اذیت سہی جو کبھی نہ دیکھی تھی۔ اب شہباز شریف کہہ رہے ہیں: عوام آٹھ فروری کو مہنگائی کا ظلم ڈھانے والوں کا سیاسی صفایا کر دیں گے۔ آدھا پاکستان پنجاب ہے۔پنجاب میں پولیس کا کردار نمایاں ہو رہا ہے۔لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ سٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں۔گلیوں محلوں میں لا قانونیت میں اضافہ ہو رہا ہے، پولیس اپنا کام نہیں کر رہی۔مجھے ڈاکٹر مبشر حسن کی بات یاد آ گئی ۔ایک بار انٹر ویو کر رہا تھا ۔بجٹ پر سوال کیا تو بولے: تم کیا سمجھتے ہو بجٹ میں اضافہ تمہاری زندگی میں سہولیات پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ نہیں بھئی، بجٹ کا مطلب عوام کی زندگی کنڑول کرنے والے اداروں کو طاقتور بنانا ہوتا ہے۔پنجاب پولیس کی سرگرمیاں دیکھ کر اسی لئے مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن یاد آئے۔ مزاحمت ایک ایسا تصور ہے جو طاقت اور جبر کا مقابلہ کرتا ہے، یہ تصور لوگوں کو زندگی کی نقصان دہ کہانیوں کے خلاف مزاحمتی کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے ٹھوس ایپلی کیشنز کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ ادبی مطالعات میں، مزاحمتی ادب ایک ذیلی شعبہ ہے جس میں ادبی تخلیقات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مطالعے کو مسلط کئے گئے نظریات کے ردکے لیے سماجی و سیاسی سرگرمی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مزاحمتی ادب کا استعمال صنفی بنیاد پر جبر کے خلاف مزاحمت کے لیے، یا آزادی کی جدوجہد یا جلاوطنی میں لکھنے میں مشکلات کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مزاحمتی ادب کا مطالعہ اصولوں کو چیلنج کرنے اور ثقافتی طریقوں سے انکار کرنے کا ایک طریقہ ہے جو کہ بعض صورتوں میں امید پیدا کر سکتا ہے۔ سیاسیات یا تاریخ جیسے شعبوں میں مسلح مزاحمت کی عکاسی کا تجزیہ یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ حکومتی اور شہری تبدیلیاں کیسے جنم لیتی ہیں، ادب کا بھی کردار ہوتا ہے۔ باربرا ہارلو کی کتاب ریزسٹنس لٹریچر (1987) اس ذیلی ادبی شعبے کی وضاحت کے لیے ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادبی تجزیہ اور مصروفیت کس طرح سیاسی مزاحمت کے نئے تصورات کو جنم دے سکتی ہے۔ میں اکثر مرزا سنا کرتا ہوں، غیر پنجابی دوستوں کے لئے عرض کر دوں کہ مرزا صاحباں کے قصے میں کئی بند رزمیہ ہیں۔پنجاب کے لوک فنکار داستان کے ان رزمیہ ٹکڑوں کو ایک خاص آہنگ اور لے میں گاتے ہیں۔یہ آہنگ بلند ہوتا ہے جیسے کوئی سورما میدان میں اترنے سے پہلے دعوت مبارزت دیتے ہوئے اپنی قوت کا لفظوں میں اظہار کرتا ہے۔میرے لوں کنڈے کھڑے ہو جاتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ پنجاب کے لوگوں نے اگر مرزا سننا شروع کر دیا تو وہ جاگ جائیں گے۔ماوں نے اگر اپنی بولی میں لوریاں دینا اور ’’بات‘‘ سنانا شروع کر دیا تو مرتی ہوئی پنجابی زبان کے ساتھ وہ تمام کردار پھر سے جی اٹھیں گے جنہیں مارنے کے لئے جابر قوتوں نے جتن کئے ہیں۔پنجابی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر برادرم احمد رضا پنجابی،مطلوب وڑائچ اور دیگر احباب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نئے فکری و ثقافتی چیلنجوں کی بابت آدھے پاکستان کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔