مکرمی ! دستور پاکستان کی رو سے نگران حکومت کا کام تین مہینے کے اندر اندر منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرواکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سپرد کرنا ہوتا ہے انہیں قیمتیں بڑھانے یا کم کرنے کا اختیار نہیں ہوتا لیکن موجودہ نگران حکومت کی جانب سے گھریلو، تجارتی اور صنعتی صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حالیہ فیصلے نے ملک بھر میں تشویش کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ 70 بلین ڈالر کے قرضے کے لیے مذاکرات سے قبل آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے پر نظر رکھتے ہوئے۔ یکم نومبر 2023 ء سے گیس کی قیمتوں میں حیران کن بلکہ ظالمانہ طور پر 200 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اس شعبے میں قرضوں کا بحران پہلے سے ہی مالی طور پر تنگ اور مہنگائی کے ستائے ہوئے بے بس صارفین پر 350 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالے گا۔پاکستان کے توانائی کے شعبے کو گزشتہ برسوں کے دوران بے شمار چیلنجوں کا سامنا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاری کی کمی، بدانتظامی، اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے مدد طلب کی تھی اور آئی ایم ایف کی ایما پر پاکستان میں متعدد ڈھانچہ جاتی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔ گیس کی قیمتوں کو بڑھانا آئی ایم ایف کی طرف سے متعین کردہ ایک بار بار چلنے والا ڈیمانڈ رہا ہے، حالیہ گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ آئی ایم ایف کی ان اصلاحات کا ایک مشترکہ حصہ ہے۔فروری میں گیس کی قیمتوں میں 113 فیصد اضافہ کیا گیا تھا جس سے صارفین پر 340 ارب روپے کا ناقابل تلافی بوجھ پڑا اور اس مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور گیس کا یہ تازہ ترین اضافہ جو کہ 200% مقرر کیا گیا ہے، عام شہریوں خصوصاً خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے غریب اور نادار عوام کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بنے گا۔ (رحمت عزیز خان چترالی)