لاہور سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ راستے پر سیاحوں اور یاتریوں کی رہنمائی کے لئے کوئی بورڈ نہیں ہے۔ دربار صاحب کے پاس آ کر سڑک پر دو جگہ پر رہنمائی موجود ہے۔ دو ڈھائی کلو میٹر کی پتھریلی سڑک عبور کی تو دائیں طرف ایک کشادہ سڑک مڑ گئی۔ ہم نے اسی طرف جانا تھا تھوڑا آگے گئے تو پولیس کی چیک پوسٹ تھی۔ یہاں شناختی کارڈ دیکھے گئے۔اس سے آگے رینجرز کی چیک پوسٹ تھی یہاں بھی تسلی کی گئی۔ایک اور چیک پوسٹ تھی۔ یہاں ساتھ بہت کھلی جگہ پارکنگ کے لئے ہے۔اندازہ ہے کوئی دو ہزار گاڑیاں آرام سے پارک ہو سکتی ہیں۔ سکین والے کمرے سے گزرے‘ یہاں ہدایات تحریر تھیں کہ دربار صاحب کی حدود میں گوشت اور تمباکو لے جانا منع ہے۔دربار صاحب یہاں سے آدھ پون کلو میٹر دور تھا۔ہم ایک الیکٹرک کارٹ میں بیٹھ گئے۔کارٹ نے کچھ لوگوں کو دربار صاحب کے اندر جانے والے پوائنٹ پر اتار دیا جبکہ ہمیں لے کر پاک بھارت سرحد پر موجود زیرو پوائنٹ کی طرف چل پڑی۔ کارٹ راوی کے پل سے گزری۔بھارت سے دریا راوی اس مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔تھوڑا دور پاکستان میں بہتا ہے پھر بھارت میں لوٹ جاتا ہے‘ گھومتا گھامتا مادھور پور کے پاس لاہور کی حدود میں دوبارہ آ جاتا ہے۔ہمارے پروٹوکول پر مامور صاحب بتا رہے تھے کہ حالیہ دنوں راوی کا پانی کناروں سے نکل کر دربار صاحب کے اردگرد کی زمینوں تک آ گیا تھا۔ان زمینوں پر اکثر بھارت سے ہرن‘ بارہ سنگھے اور دوسرے جانور آ نکلتے ہیں لیکن شکار کی سختی سے ممانعت کے باعث یہ جانور بے فکر رہتے ہیں۔لگ بھگ تین کلو میٹر آگے جا کر زیرو پوائنٹ آ گیا۔ پھاٹک کھلا ہوا تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ بھارت سے آنے والے افراد اس گیٹ سے پاکستان آتے ہیں۔ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد تھوڑا سا آگے ایک وسیع عمارت ہے۔یہاں یاتریوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔وہ 20ڈالر فیس ادا کرتے ہیں۔یہاں سے انہیں الیکٹرک کارٹ یا ایئرکنڈیشنڈ بسوں کے ذریعے دربار صاحب کے داخلی پوائنٹ تک لایا جاتا ہے۔سارے علاقے کو خار دار تاروں سے محفوظ کر دیا گیاہے۔ دربار صاحب کا رقبہ 800مربع پر مشتمل ہے۔حکومت نے پرائیویٹ لینڈ خرید کر اپنے پاس رکھ لی ہے تاکہ مستقبل میں ترقیاتی منصوبوں کا ماڈل شہر منصوبہ بندی کے ساتھ بسایا جا سکے۔ہم نے زیرو پوائنٹ پر سرحدی محافظوں سے کچھ گپ شپ کی۔ اس دوران میٹنگ کا وقت ہو گیا۔ہمارے سامنے سرحدی لائن پر میز رکھا گیا۔دونوں طرف کے افسران ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اور پورے دن کی سرگرمیوں پر ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کیا۔کچھ دیر رک کر کارٹ نے ہمیں دربار صاحب کے داخلی پوائنٹ پر اتار دیا۔ پاکستانیوں کے لئے یہاں چار سو روپے کا ٹکٹ ہے۔ٹکٹ لے کر ہم ایک ہال میں آئے جہاں کارڈ جاری کیا گیا۔ یہ کارڈ کئی رنگ کے فیتے والے ہوتے ہیں۔بھارتیوں کے لئے اور‘ پاکستانیوں کے لئے مختلف‘ اوورسیز کے لئے الگ۔کارڈ گلے میں ڈالنا ہوتا ہے‘ گم ہونے کی صورت میں ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔یہاں آنے کے لئے اصل شناختی کارڈ لازمی ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔یہاں سے گزرے تو درشن ڈیوڑھی میں آ گئے۔پروٹوکول والے صاحب ہمیں ایک گائیڈ کے حوالے کر گئے۔ایک بڑے سے کمرے میں ہمیں ڈاکومنٹری کے ذریعے عمارت کا تعارف کرایا گیا اس کی تاریخ بتائی گئی کہ 550سال پہلے بابا گورو نانک دیوجی یہاں زندگی کے 18آخری سال مقیم رہے۔ہم سب کو بڑے رومال دیے گئے کہ سر کو ڈھانپ لیں۔سرمد خان اس مقدس مقام کا پورا احترام کر رہے تھے ۔جوتے ایک ریک میں رکھے اور اندر کی طرف چل پڑے سفید سنگ مر مر کا بہت بڑا احاطہ۔دھوپ خوب چمک رہی تھی۔سنگ مر مر پر مصنوعی گھاس کا راستہ بنایا گیا تھا۔کہیں ٹاٹ کی راہ گزر بچھائی گئی تھی۔ان راستوں کو پانی سے تر کیا گیاتاکہ لوگوں کے پائوں نہ جلیں۔ درشن ڈیوڑھی کی طرح دربار صاحب کی مرکزی عمارت بھی پنجابی طرز تعمیر کا شاہکار ہے، کھلی کھلی ۔داٹ دار ۔بلند چھتیں،ہوادار۔سفید رنگ کی عمارتوں کی محرابیں اور کنارے سنہری رنگ سے چمک رہے تھے۔کشادگی میں پاکیزگی اور روحانیت کا احساس گھلا ہوا تھا۔پہلے پانی کی ایک صاف نالی سے گزرے۔ اس سے پائوں دھل جاتے ہیں۔ پھر سروور صاحب گئے ، یہ تالاب چار فٹ تک گہرا ہے ۔خواتین اور مردوں کے اشنان کے الگ الگ حصے ہیں۔گرمی میں ٹھنڈا پانی پاوں کے رستے توانائی دے رہا تھا۔مرکزی عمارت مہاراجہ پٹیالہ نے 1929ء میں بنوائی تھی۔آزادی کے وقت بہت خون خرابہ ہوا۔جب پچھلی بار آیا تھا تو چودھری پرویز الٰہی کے حکم سے صفائی اور کچھ نئی عمارتیں بن گئی تھیں لیکن بعض آثار سے ماضی کے ہنگاموں کا اندازہ ہوتا تھا۔ہم نے بابا گرونانک جی کی قبر کی زیارت کی۔مرکزی عمارت کے اندر ان کی سمادھی ہے۔روایت ہے کہ انتقال کے وقت مسلمانوں اور ہندوئوں سکھوں میں بابا جی پر دعویٰ کا جھگڑا ہوا۔کسی نے ان پر چادر ڈال کر اٹھائی تو نیچے پھول پڑے تھے۔مسلمانوں نے پھول دفنا کر قبر بنا دی جبکہ سکھوں اور ہندوئوں نے سمادھی بنا دی۔ اوپر والے حصے میں گورو گرنتھ صاحب دھرے تھے۔ عبادت کا وقت شروع ہو چکا تھا اس لئے ہم ایک طرف ہو گئے۔ نیچے آئے تو بابا گورونانک کے کنویں سے پانی پیا۔یاتری یہاں سے بوتلیں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔پھر لنگر خانے پہنچے۔کیا عمدہ اور صاف ستھرا انتظام تھا۔ پسرور میں کرنل اشفاق کھانے پر ہمارے منتظر تھے۔عامر خاکوانی لنگر چکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے لوبیا چاول کھائے۔ دربار صاحب کے احاطے میں تصویر کشی کی اجازت ہے لیکن ویڈیو بنانے کی ممانعت ہے۔ہم نے چبوترے پر بنے کرپان کے ماڈل کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھوں افتتاح کا لکھا ہوا تھا۔ٹائم ختم ہوا۔ چار بج چکے تھے‘ ننکانہ صاحب جانے کا وقت نہیں رہا تھا۔باہر آئے تو یوں لگ رہا تھا ہم ایک سکون اندر بھر کر جا رہے ہیں۔