یہاں سے بارہا گزرا ہوں۔ اس علاقے کے تاریخی آثار سے کافی حد تک واقف ہوں۔ معلوم ہے کہ لاہور میں ایک حکیم ہوا کرتا تھا۔ جہانگیر بادشاہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ شاہ جہاں تخت نشیں تھا۔ جہانگیر کی چہیتی ملکہ کے پائوں میں پھوڑانکل آیا۔ طبیب جو علاج بتاتے وہ چیرا دینے کا تھا۔ نور جہاں اس پر آمادہ نہ ہوتی۔ کسی نے شاہ جہاں کو حکیم کے متعلق بتایا۔ حکیم آیا۔ ایک جگہ ریت بچھا دی اور نور جہاں سے برہنہ پا ریت پر چلنے کی درخواست کی۔ نور جہاں ایک طرف سے چلتی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔ حکیم نے ریت پر بنے نقش سے اندازہ کیا کہ پھوڑا پائوں کے کس حصے میں ہے۔ اس نے ریت پر بنے نقش میں ایک جگہ باریک کانٹا رکھ دیا اور ملکہ سے کہا کہ پہلے سے بنے نقوش کے عین اوپر چلتی ہوئی آئے۔ ملکہ پہلے کی طرح ریت پر چلتی ہوئی دوسری جانب گئی تو اس کے پائوں کا پھوڑا پھٹ چکا تھا۔ اسے ذرا درد نہ ہوا۔ خوش ہو کر ملکہ نور جہاں نے اپنے بدن پر موجود تمام زیورات حکیم کی نذر کئے۔ ملکہ کی تمام کنیزوں نے بھی اپنا زیور نذر کیا۔ بادشاہ نے الگ انعام دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہی دن میں ان بھلے وقتوں میں حکیم کو گیارہ لاکھ روپے بطور انعام و اکرام ملے۔ بادشاہ نے اسے شاہی طبیب کا منصب عطا کیا۔ یہی حکیم وزیر خان کے نام سے لاہور کا بعد میں گورنر بنا۔ وزیر خان مسجد اسی سے منسوب ہے۔ انگریز راج میں لاہور میں کئی نئی عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ پہلی کئی عمارتیں گرا دی گئیں۔ ٹائون ہال کی عمارت اسی عہد کی یادگار ہے۔ اس کے ایک جانب پنجاب پبلک لائبریری ہے۔ یہ لائبریری وزیر خان کی بارہ دری میں بنائی گئی۔ اس بارہ دری کا کچھ حصہ اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بارہ دری کے سامنے مشرق کی طرف ایک سڑک ہے جس کے دوسرے کنارے نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت ہے۔بائیں ہاتھ چوک میں زمزمہ توپ کھڑی ہے۔ یہاں سکھ دور میں ایک خوبصورت باغ ہوا کرتا تھا۔ یہ طے ہے کہ رنجیت سنگھ نے جب لاہور کے غارت گر سکھ حکمرانوں پر چڑھائی کی تو اس کی ساس مہارانی سدا کور نے بٹالہ سے فوج اس کی مدد کے لیے بھیجی ۔اس فوج نے ٹھیک اس مقام پر پڑائو ڈالا جہاں این سی اے اور وزیر خان کی بارہ دری موجود ہے۔ میری نظر اچانک ہی گھنے درختوں میں چھپی اس چار دیواری پر جا پڑی تھی جسے برسوں سے میں ٹائون ہال کا حصہ سمجھتا رہا۔ ٹائون ہال کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب سے لے کر پنجاب پبلک لائبریری تک دیوار ہے۔ درمیان میں ایک جگہ سریوں سے بنا چھوٹا سا گیٹ نصب ہے جو مدتوں سے بند ہے۔ میں نے اندر جھانکا تو ایک اونٹ بندھا ہوا دیکھا۔ بوڑھے اور تناور درختوں نے گھنی چھائوں کر رکھی ہے۔ سامنے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آ رہا تھا جو قدیم عمارت کے عقب سے چڑھنے والی سیڑھیوں کا راستہ ہے۔ بیرونی چار دیواری اور اندر والی عمارت کے درمیان کافی کشادہ جگہ ہے۔ یہ جگہ اندر سے دو تین حصوں میں بانٹنے کے لیے دیواروں سے الگ الگ کردی گئی ہے۔ جو حصہ ٹائون ہال کے گیٹ سے ملحق ہے۔ اس کا کوئی دروازہ ہے نہ کھڑکی۔ اندر کئی طرح کے درخت‘ جھاڑیاں اور بیلیں بھری ہوئی ہیں۔ گویا گھنے جنگل کا ایک گوشہ چاروں طرف دیواریں کھڑی کر کے حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ ٹائون ہال کے اندر والی قدیم عمارتوں اور بارہ دری کی پرانی عمارت کا عقبی حصہ ہے۔ میری حیرت کی وجہ یہ ہے کہ اتنی کشادہ جگہ کو الگ تھلگ کیوں کردیا گیا ہے۔ ٹائون ہال کی کہانی 1890ء میں شروع ہوتی ہے جب لاہور شہر کو بلدیہ کا درجہ دیا گیا۔ اس عمارت کا مرکزی ہال مقامی ضلعی حکومت کے اجلاسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ احاطے کے اندر فائر بریگیڈ کے دفاتر ہیں۔ٹائون ہال کا سنگ بنیاد لیفٹیننٹ گورنر پنجاب چارلس ایچی سن نے رکھا۔ تقریب میں پرنس البرٹ وکٹر نے بھی شرکت کی تھی۔ وزیر خان نے اس مقام پر جو باغ تعمیر کیا اس کا نام نخلیہ باغ تھا۔ اس باغ کی تعمیر 1634ء میں بتائی جاتی ہے۔ حکیم علم الدین المعروف وزیر خان نے باغ کے عین درمیان میں بارہ دروازوں والی عمارت تعمیر کی۔ اس بارہ دری کا ڈھانچہ مغلوں کی روایتی تعمیرات جیسا ہے۔ عمارت کے اردگرد تالاب تھے جن میں کسی وقت فوارے اچھلا کرتے تھے۔ وقت گزرا‘ سکھوں اور انگریزوں نے ان عمارت کو استعمال کیا تو باغ اجڑ گیا۔ آج پورے علاقے کو دیکھ کر کوئی پرانے باغ کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ سکھوں نے بارہ دری اور اس سے ملحق عمارتوں کو پہلے چھائونی کا حصہ بنایا۔ یہاں فرانسیسی سپاہیوں کو رکھا گیا۔ انگریز نے بارہ دری کو ٹیلی گراف دفتر بنا دیا۔ پھر لاہور کینٹ کے لیے سیٹلمنٹ آفس یہاں بن گیا۔ لاہور کا پہلا عجائب گھر اسی جگہ بنا جو نئی عمارت تعمیر ہونے پر موجودہ جگہ منتقل ہوگیا۔ 1885ء میں لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے یہاں لائبریری قائم کرنے کا حکم دیا۔ اب یہ باغ لائبریری‘ بارہ دری کی مرکزی عمارت، ٹائون ہال‘ سڑکوں‘ این سی اے اور سرکاری دفتروں میں تقسیم ہوا پڑا ہے۔ کئی بار یہاں سے گزر ہوا لیکن آج تو قدم رک گئے۔ گاڑی این سی اے کی جانب سڑک کنارے رکوائی۔ دوسری طرف گیا۔ دیواریں بہت بلند نہ تھیں لیکن اتنی کم قامت بھی نہیں کہ ان کے اوپر سے جھانکا جا سکے۔ جنگلہ نما پھاٹک کے روزنوں پر موبائل فون رکھ کر تصویریں لیں جو اچھی نہ تھیں۔ ایک روزن سے موبائل کیمرہ دروازے کے اندر کیا اور اسی ہاتھ سے چند تصویریں لے لیں۔ دو اونٹ‘ کھجور‘ پیپل اور گلہڑ کے درخت اور گلوکی بے تحاشا پھیلی بیلیں ۔ ویرانی، اداسی اور وحشت یہاں بھری ہوئی ہے۔ اس جگہ کتنے مہ جبیں رونق افروز رہے۔ پھر کتنی قتل و غارت ہوتی رہی۔ اردگرد نئی عمارتیں بنتی رہیں لیکن یہ پراسرار قدیم گوشہ کسی آسیب کا ٹھکانہ بن کر رہ گیا ہے۔